اسلام جو دین فطرت ہے اور اللہ نے اسے اپنی طرف آنے کا سب سے جامع راستہ قرار دیا ہے۔ دین میں خیر خواہی کا پہلو ہی اسے انسانیت کے لیے ناگزیر بناتا ہے ۔یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے یہاں جو انسان بھی اتا ہے اسے جانا ہوتا ہے ۔یہ دنیا کبھی بھی باصلاحیت انسانوں سے خالی نہیں رہتی اور کوئی انسان ناگزیر نہیں ہوتا۔ مگر ایسے انسان جو اپنے کام کو اپنا عشق بنا لیں اور اپنے کام سے عشق کریں۔ اور پھراسےاداروں کی شکل میں ڈھال دیں ۔ایسے اشخاص افراد اور ان کی سوچوں کو اداروں کی کہکشاں میں ڈھال کر معاشرے کے لیے نفع رسانی کا سبب بنیں، وہ ہمیشہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔
ہمارا وطن پارہ پارہ ہے۔ ہماری سوچیں منتشر ہیں۔ اور ہمارے اعمال بھی اجتماعیت سے کوسوں دور، ہمارے شب و روز نظام الاوقات میں پروئے ہوئے نہیں۔ ہماری سیاسی بے یقینی نے ہمیں اجتماعی یکسوئی کی نعمت سے بھی محروم کر دیا ہے ۔حالانکہ پہاڑی لوگ ہمیشہ توکل اور قناعت کے خوگر رہتے ہیں۔ خوبصورت موسم سربہ فلک چوٹیاں گھنے جنگلات دل نواز بستیاں اور مخلص باشندے یہاں کا زیور ھوتےہیں۔ ہر انسان کے اندر ایک معلم ہوتا ہے اور ہر معلم کے اندر ایک فنکار چھپا ہوا ہوتا ہے، کہیں ضمیر کی صورت میں، تو کہیں محبت، شفقت، مودت اور خیر خواہی کے جذبوں کی صورت میں۔ لیکن خوش نصیبی ہے کہ جو اشخاص تعلیم اور تعلم کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنا لیتے ہیں اور وہ مقام جہاں خواہش قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں تو اسے خوش بختی کے کیا کہنے۔ حسین شہید پوسٹ گریجویٹ کالج اللہ کے فضل اور کرم اور اساتذہ کی شبانہ روز محنت کی بدولت ایک عشرہ سے بہت اچھے تعلیمی سفر پر گامزن ہے۔ بہترین نتائج کا تسلسل ،تربیت کے امور پر خصوصی توجہ، زبان و بیان اور آزادانہ سوچوں کی آبیاری کے لیے ایک لمبے عرصے سے محنت اور کوشش تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اور یقینا اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ اللہ کے کرم کی وجہ سے اس ادارے کو ہمیشہ ایسا ٹیم کپتان ملتا رہا جو اپنی ٹیم کے ساتھ نسل نو کی ”تعمیر و ترقی“ کو ایک ٹیم ورک کے طور پر لے کر چلتا رہااور اس ادارے کو اعتماد کی بلندیوں پر پہنچانے کا سفر جاری و ساری ہے۔ اس مقام تک پہچنانے میں ھر شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اپنے آپ کو استعمال کرنا اپنی سعادت سمجھتا رہا ہے۔ اور اپنے فرائض منصبی کو اپنی قلبی لگن سے پورا کرنا اس کے لیے ہمیشہ باعث سعادت رہا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز صادق جو اس وقت پرنسپل کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہیں انہوں نے بھی ادارے کی بہتری اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کے سفر میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کیا ۔آپ نے نہ صرف کامیابیوں کے تسلسل کو تقویت بخشی بلکہ حالیہ چند سالوں کے نتائج اس امر کے غماض ہیں کہ
اجالے دیتے ہیں میرے سجدوں کی گواہی
کہ میں چھپ چھپ کر عبادت نہیں کرتا
آپ نے اپنی” دور ذمہ داری“ میں تعلیم اور تعلم کی بہتری کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے کے لیے اداروں کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔ بزم ادب ، لٹریری سوسائٹی ہو یا کھیل کے میدان ہوں، اخلاقی اور سماجی اصلاح کے لیے سیمینار ہوں، تعمیرات کا معاملہ ہو یا حکومتی معاملات میں مشاورت کرنی ہو آپ نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو پوری قوت سے صرف کیا۔ کہتے ہیں کہ جو آدمی صاحب مطالعہ ہوتا ہے اس کی دماغی صلاحیتیں زیادہ متحرک ہوتی ہیں۔ آپ نے اپنے فیصلوں میں اپنی دماغی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ آپ ایک شائستہ اور نفیس طبیعت کے مالک ہیں ۔آپ کو شروع سے ہی علم دوست ماحول ملا جس نے جس نے آپ کی شخصیت کو زبان بیان کے ذوق سے بہرامند کیا۔ آپ قلم اور قرطاس کی دنیا کے باسی ہیں ،صاحب تصنیف بھی ہیں، ایک اور کتاب کے حوالے سے” امید سے بھی ہیں“۔ آپ کے اندر قدرت نے بلا کی حس مزاح رکھی ھے۔ جب آپ کی رگ ظرافت پھڑکتی ہے اور اپ کے ہاتھ میں قلم اور کاغذ ہو تو پھر یقینا شاہکار ادب تخلیق ہوتا ہے اور” کاکا پہائی“ جیسی تخلیقات منظر عام پر آتی ہیں۔ آپ کی محفل میں صرائی اور پیمانہ تو ایک طرف کیجیے ساقی کی کیا مجال سرک جاے۔ آپ کی شگفتہ تحرریں قاری کو زیر لب مسکراہٹ سے قہقہے پر مجبور کر دیتی ھیں۔اللہ پاک نے انہیں خوش خیال، خوش جمال ہونے کے ساتھ صاحب مال بھی بنایا ہے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ان کے مال میں دوستوں یاروں کے علاوہ نادار لوگوں کا حصہ بھی موجود رہتا ہے آپ نےایکٹا کی سیاست میں بھی سرگرم کردار ادا کیا اس ضمن میں کہیں وہ ہیرو رہے ہوں گے اور کسی کے نزدیک ولن لیکن انہوں نے پرنسپل بننے کے بعد جو خوف، جھجک، پریشانیوں اور غلط فہمیوں کا رشتہ تھا اسے کم کرنے کی کوشش کی۔ اللہ کرے کہ یہ دوریاں ختم ہوں۔ اختلاف رائے دشمنی اور مستقل دل شکنی کا باعث نہ بنے۔ ہمارے معاشرے کی مروجہ سیاست کی آلائشیں ہمارے اس مقدس پیشے اور اس سے وابستہ سوچوں اور افراد کے خیالات کو پراگندہ نہ کریں۔ ہمارا شعبہ سارے شعبوں کی بنیاد ہے اس لیے یہاں پر خرابی معاشرے کی باقی پرتوں کو بھی آلودہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں نظام تعلیم کی بہتری کے لیے اس سے جڑے ہر شعبہ میں اصلاح اور بہتری کے لیے اپنی اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا چاہیے۔ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کا دم چھلہ بن کر پاور پالیٹکس کا حصہ بننے کے بجائے ہمیں اس معاشرے کی نوک پلک سنوارنے کے لیے، اچھی سوچوں اور اچھے نظریات کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اس ضمن میں معتدل فکر کے حامل لوگوں کو اگے آنا چاہیے۔ اور ان نفرتوں اور کینہ پروری پر مبنی سوچوں کو محبت الفت اور قربت میں تبدیل کرنا چاہیے۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ جو بھی شکوہ شکایت یا شکررنجی ہوتی ہے اس کے پیچھے مفاداتی اور گروہی سیاست ہوتی ہے۔ ”چنگا ھے یا مندہ ھے حاجی اپنا بندہ ھے“ اس طرح کی سوچ اداروں کے لیے نقصان دہ ھوتی ھے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو طاقتور کرنے کے لیے چیئر کا کندھا استعمال کرتے رھتے ہیں۔ ہمارا پیشہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اس پیشے سے وابستہ ھر فرد کو توقیر بخشی جائے ۔ ہماری سیاست کا محور نظام تعلیم ،طریقہ تعلیم، اساتذہ کی مہارتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، ان کی تعلیمی اور تدریسی صلاحیتوں کی بڑھوتری کے لیے سفارشات مرتب کرنا، بورڈ کے جملہ مسائل پیپر سیٹنگ ،چیکنگ، ڈیٹ شیٹ اوراسی طرح طلبہ و طالبات میں لکھنے، پڑھنے، بولنے، سوال کرنے، تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے حوالے سے سوچ و بچار ہو۔ تربیت کا میدان خالی ہے۔ ھماری تدریسی سرگرمیوں میں اگر صلاتہ کا نظام قائم ہو جائے تو بچوں کی بہتر انداز میں تربیت ھو سکتی ھے۔ بچہ ہمارے پورے سسٹم سے گزر جائے لیکن وہ عملی مسلمان نہ بن سکے اور ہمارا دعوی ہو کہ ہمارا پیشہ معلمی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کھاتا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ بہرکیف ڈاکٹر ممتاز صادق کی ایک نمایاں خصوصیت جو انہیں ممتاز کرتی ہے کہ آپ کا علمی ذوق، آپ کی تحریر اور تقریر کا ملکہ، آپ کی مزاج آشنائی کا سفر، ہر قسم کی مجلس ومحفل کے ذوق کےمطابق گفتگو آپ کی علم دوست شخصیت کا اعجاز ھے۔ آپ نے کتاب میلہ کے عنوان سے علم اور ادب کی ترویج کے لیے، حرف اور معنی کی تفہیم اور اس کی تکریم کے لیے، حسین شہید کالج میں ایک بزم سجائی اور خوب سجائی۔ آپ نے اس شہر سے محبت کی اور کتاب سے بھی محبت کی اس لیے ہمیشہ شاد ہی رہے ۔جدید ٹیکنالوجی کے ہاتھوں الفاظ اور معنی کی تجہیز و تکفین کی خبریں دیتے لوگ تھکتے نہیں تھے ۔ان کی یاس کوآس میں بدلنے کے لیے آپ نے کتابوں کی دنیا اس شان سے شہر مزاحمت میں سجائی کہ ملک کے طول و عرض سے محبان کتب کشاں کشاں اس پیراہن کاغذی کی دید کو امڈ امڈ آئے۔ یہ ٹرینڈ ایسا چلا کہ کتابوں سے محبت کی یہ خوشبو، یہ روشنی وقت کے ساتھ روح پرور اور تابناک ہوتی جا رہی ہے۔ اور اب شہروں کے شہر اس کی قدم بوسی اور پیروی کو اپنا اعزاز اور افتخار سمجھتے ہیں۔ آپ نے کتابوں سے محبت کا کلچر پروان چڑھایا جو آپ کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنتا رہے گا۔ آئینی ترامیم اگر منظور ہو جاتی تو ممکن تھا کہ ادارے کو اپنی ”حیات مستعار“ کی کچھ ماہ و سال دے سکتے کیونکہ ڈھلتی عمر کے ساتھ ان کا جمال اور کمال مائل بہ زوال نہیں بلکہ مائل باکمال ہے۔ لیکن ترسیہٹھ اے کی تشریح کی صورت میں ہمیں اپنے بوجھل دل کے ساتھ انہیں الوداع کہنا پڑے گا۔ اس امید اور خواہش کے ساتھ کہ اللہ پاک آپ کو ایمان اور صحت کی عافیت کی حالت میں رکھے۔ آپ کا قلم آپ کے ذوق کے مطابق چہروں پر مسکراہٹ اور قہقہے بکھیرنے کا فریضہ ادا کرتا رہے۔ اللہ پاک اولاد کی خوشیاں نصیب کرے۔ اور سب سے بڑھ کر حدیث کے مطابق عقلمند آدمی وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کر لے اس لیے اپنی صلاحیتوں کو مخلوق خدا کی بہتری کے لیے صرف کر کے رب کریم کی رضا حاصل کرنے کا سامان پیدا کرتے رہنا چاہیے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک طاقتور قلم ہے۔ جس سے اپ اقراء کی ابدی اور کائناتی سچائیوں کو قلوب اور اذہان کے دریچوں پر دستک دینے کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ اور مخلوق خدا کو انسانی جبر اور استحصال کی زنجیروں سے آزاد کرنے میں مدد اور معاون ہو سکتے ہیں۔ اور انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانے کے مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا سکتے ہیں.
—