شنگھائی تعاون تنظیم،اغراض ومقاصد ….عابد صدیق

0

رواں ماہ 16،15 اکتوبر کو جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان مملکت کا اجلاس اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے ۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک علاقائی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تنظیم ہے جسے 2001 میں چین اور روس نے باہمی مشاورت سےقائم کیا۔ ابتداء میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان اس تنظیم کے ممبر ملک تھے ۔2016 تک ممبر ممالک کی تعداد یہی رہی۔2017 میں پاکستان اور بھارت نے ایک ساتھ جبکہ ایران نے 2023ء اور بیلاروس نے 2024ء میں تنظیم کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔اس طرح اب تنظیم کے مستقل ارکان کی تعداد 10ہے۔ 03ممالک “مبصر” اور 14ممالک “ڈائیلاگ پارٹنرز” کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے “ایس سی او “دنیا کے تقریباً 80فیصد رقبے پر محیط ہے۔ یہ تنظیم دنیا کی 40فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے یوں یہ مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً 32فیصد حصہ رکھتی ہے۔
تنظیم کے 4اہداف ہیں ۔” رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس ،ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ”
“ایس سی او “کے موجودہ سربراہی اجلاس سے قبل گزشتہ ماہ 10اور 11ستمبر کو اسلام آباد میں ایس سی او کی تجارت اور اقتصادی امور کے وزراء کا اجلاس ہوا تھا جس میں اقتصادی حوالے سے ڈائلاگ ہوا۔ اس موقع پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) نے اسلام آباد میں ایس سی او بزنس اور انویسٹمنٹ کانفرنس منعقد کی جس میں ایس سی او ممبر ممالک کے چیمبرز، فیڈریشن، بزنس مین اور پاکستان میں تعینات ایس سی او ممالک کے تمام سفیروں نے شرکت کی تھی۔ کانفرنس میں ایس سی او ممالک میں تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے طریقہ کار پر تقاریر اور پینل ڈسکشن کئے گئے۔ افتتاحی اجلاس میں سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی، وزیر تجارت جام کمال، وزیر پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک، گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام نے شرکت کی تھی۔
مقررین نے واضح کیا کہ دنیا میں تجارت کے فروغ کا سب سے کامیاب ماڈل ریجنل ٹریڈ یعنی علاقائی تجارت ہے۔ اگر ہم دنیا کے کامیاب علاقائی تجارت ماڈل کا موازنہ کریں تو نارتھ امریکن بلاک NAFTA کی باہمی تجارت 40 فیصد، یورپی یونین کے 27ممالک کی باہمی تجارت 57فیصد، آسیان ممالک کی باہمی تجارت 27فیصد جبکہ SCO ممالک کی باہمی تجارت بمشکل 5فیصد اور سارک ممالک کی باہمی تجارت 4 فیصد ہے۔ یعنی SCO اور سارک بلاک جن کے ممبرز میں ، پاکستان اور بھارت کے سیاسی اختلافات کی وجہ سے خطے کی تجارت فروغ نہیں پاسکی۔ پاکستان کی SCO ممالک سے ٹریڈ 24.6 ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان سے ایکسپورٹ 4.6 ارب ڈالر اور امپورٹ 20 ارب ڈالر ہے۔ اس ٹریڈ میں پاکستان اور چین کی تجارت 22ارب ڈالر ہے یعنی دیگر ممالک سے پاکستان کی تجارت صرف ایک فیصد یعنی 2.6 ارب ڈالر ہے جو دنیا کے سب سے بڑے علاقائی تجارتی بلاک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔اس موقع پر تجویز دی گئ کہ سیاست، ڈپلومیسی اور تجارت کو علیحدہ رکھا جائے۔ بھارت سے تجارت پر پابندی ختم کرنی چاہیے اور بھارت کو بھی SCO اور سارک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم علاقائی بلاکس کے مقاصد حاصل کرسکیں۔
ایس سی او اور سارک ممالک سے تجارت کے فروغ کیلئے ہمیں ممبر ممالک میں بینکنگ چینل کھولنے ہوں گے جبکہ وسط ایشیائی ممالک جن کی اپنی بندرگاہیں نہیں اور وہ پاکستان کے زمینی راستے تجارت کررہے ہیں ، کے فروغ کیلئے ہمیں ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا ۔ نیشنل لاجسٹک سیل (NLC )نے حال ہی میں وسط ایشیائی ممالک میں کنٹینرز کے ذریعے تجارت بڑھائی ہے۔ SCO کے دو اہم ممالک روس اور ایران سے پاکستان کی تجارت نہایت کم ہے۔ روس کی فی کس آمدنی 13647 ڈالر اور ہماری تجارت بمشکل ایک ارب ڈالر ہے جبکہ ایران کی فی کس آمدنی 4662 ڈالر اور ہماری تجارت 1.8ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح بھارت سے ہماری تجارت بمشکل 531 ملین ڈالر ہے جسے بڑھانے کا بہت پوٹینشل موجود ہے۔ SCO تنظیم کا مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریئے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ خطے میں دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے چینی وزیر خارجہ نے کانفرنس میں تجویز پیش کی کہ SCO ممالک کو افغانستان سے گریٹر ڈائیلاگ کرنا چاہئے، پاکستان کیلئے یہ اہم موقع ہوگا کہ وہ اس سوچ کو SCO کے پلیٹ فارم سے عملی جامہ پہنائے اور افغانستان سے دہشت گردی کے معاملے پر ڈائیلاگ کرے۔روس نے اس پر قدرے عمل کرتے ہوئے سربراہان مملکت کے اجلاس سے دو ہفتے پہلے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔روس تنظیم کا اہم رکن ملک ہے ،اس کے اس عمل سے تنظیم اقتصادی طور پر آگے کے ہداف پورے کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
ایس سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔ اب اطلاعات ہیں کہ ان کی جگہ بھارتی وزیر خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں گے۔ گزشتہ سال 4 جولائی 2023ء کو بھارت میں ہونیوالے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ پاکستان اور بھارت کو بھی اب ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جن پر عمل پیرا ہو کر دنوں ممالک اپنی اقتصادی صورتحال بہتر کر پائیں۔اور دنوں ممالک کے عوام خوشحال ہو سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں