”ٓآبشار“ ”سمندر“بننے میں دیر نہیں لگاتا تھا۔۔۔۔عابد صدیق

0

”ٓآبشار“ ”سمندر“بننے میں دیر نہیں لگاتا تھا۔۔۔۔عابد صدیق
تقریباً دوسال پہلے کی بات ہے میں اور آبشار کفایت، عامر خورشید صدر پاکستان پیپلزپارٹی (پونچھ) کے ہمراہ مظفرآباد جا رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی آبشار کفایت کہنے لگے کہ سفر میں میری طبیعت خراب رہتی ہے۔اس لیے راستے میں کوئی سیاسی بات کوئی نہ ہو گی۔ یہ اصولی فیصلہ تو طے پایا گیاکہ سیاسی بات نہ ہو گی لیکن فیصلے پر پوری طرح عمل کیسے ہو سکتا ہے جب اوڑھنا بجھونا سیاست ہی ہو۔دھیر کوٹ کے پاس پہنچے تو اس نے اظہار کیا طبیعت ٹھیک نہیں کہیں رک کر چائے پیتے ہیں، ایک جگہ رکے،چائے پی تو اس دوران فیس بک پر میری ایک پرانی تصویر سامنے آئی جو کالج کے وقت کی تھی اور بڑے گھنے بال تھے۔ آبشار کفایت کہنے لگے کہ یہ والی تصویر مجھے بھیج دیں میں اپنے پاس محفوظ رکھوں گا،میں نے پوچھا کہ میری تصویر کو آپ کیا کریں گے تو کہنے لگے کہ ”ؔ زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے لیکن اگرکوئی مر جائے تو اس کی یاد گار تصویر ملنا مشکل ہوتی ہے۔اگر آپ پہلے مرے تو میں یہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کروں گا“۔میں نے تصویر تو بھیج دی لیکن کیا پتہ تھا کہ پہلے کس کی موت ہو گی اور کس کی تصویر شیئر ہو گی۔
کہتے ہیں کہ کسی شخصیت کو پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کریں یا پھر لین دین کر کے پرکھیں۔لین دین تو نہیں کیا لیکن ہم دنوں نے اگھنٹے سفر بہت زیادہ کیا۔کچھ خوبیاں تو انسان کی زندگی میں آشکار ہو جاتی ہیں لیکن بعض خوبیاں انسان کی موت کے ہی عیاں ہوتی ہیں۔آبشار میں کئی خوبیاں تھیں،وہ تھا تو”ٓابشار“ لیکن ”سمندر“بننے میں دیر نہیں لگاتا تھا۔وہ معاملہ فہم تھا جتنا بڑا مسئلہ درپیش ہو وہ اس کا حل تلاش کرتا تھا۔منہ پر بات کرنا مشکل کام ہے لیکن وہ یہ فن بھی جانتا تھا،اپنی پارٹی قیادت ہو یا بیوروکریسی،دوست ہو یا دشمن،کسی کو جانتا ہو یا کوئی اجنبی ہو وہ حق و سچ کا اظہار سر محفل کرنا جانتا تھا،بہت کم غصہ کرتا تھا لیکن اگر کسی مقام پر غصہ آبھی جائے تو کچھ ہی دیر میں اسے احساس ہو جاتا تھا کہ ممکن ہے میری وجہ سے کسی کا دل دکھا ہو تو وہ معذرت کر لیتا تھا،دوستی کو نبھانے کا فن اس سے زیادہ کون جانتا تھا،وہ دوستی محض رسماًنہیں نبھاتا تھا اس کے قریب جو حلقہ یاراں ہوتا تھا ان کے مسائل و مشکلات سے وہ آگاہ رہتا تھا،ان کا کوئی الجھا ہوا معاملہ ہو،جرگہ کرنا ہو تو تب بھی وہ پیش پیش رہتا تھا،آبشار کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا،یہ خوبی تو اضافی تھی کہ وہ آنکھ کھلتے ہی جس نظریے کے ساتھ چمٹ گیا مرتے دم تک اسے ترک نہ کیا لیکن ان کے حلقہ احباب میں محض اپنے نظریے کے احباب ہی نہیں تھے بلکہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ،ہر نظریے کے ساتھی اور دلچسپ بات یہ کہ ہر عمر کے لوگ ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ان کی بے وقت موت کے بعد ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آبشار کے ساتھ میرے تعلقات زیادہ تھے۔
”آبشار“ کی پہچان بھی بڑی آسان تھی،جب سامنے سے آنے والا شخص شلوار قمیض کمال کی ”استری“سے مزین، کالی چپل،چہرے پر کالی عینک اور مسکراہٹ کے ساتھ آرہا ہو تو سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ آبشار ہی ہو سکتا ہے، بس یہ اس کی پہچان تھی۔کسی اجنبی کے محفل میں آجانے سے وہ محتاط ہو جاتا تھا اور پھر فوری طور پر ساتھیوں سے کہتا کہ کہ مہمانوں کا تعارف نہیں ہے پہلے تعارف کروائیں پھر بات آگے چلے۔وہ محفل کا بادشاہ تھا،جس محفل میں بیٹھتا ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ اسی کی بات سنی جائے۔وہ کئی گھنٹے کسی بھی موضوع پر بات کر سکتا تھا لیکن کمال یہ تھا کہ دوسرے کی بات سننے کی ہمت رکھتا تھا۔دوسرے کو بات کرنے کا پورا موقع دیتا تھا۔
دل کے ڈاکٹروں نے انہیں بہت پہلے دل کی بیماری سے آگاہ کر دیا تھا لیکن وہ بیماری کے ساتھ اپنے اعصاب سے لڑنا چاہتا تھا۔کئی سال تو وہ لڑتا رہا لیکن موت چونکہ اٹل ہے اس لیے بالآخر اس جنگ میں وہ ہار گیا۔رواں سال خاص کر چند ماہ پہلے تک وہ غیر محسوس طریقے سے تبدیلیوں سے دوچار تھا۔اس کے رہن سہن،حلقہ احباب کے ساتھ تعلق میں اور غیر معمولی سرگرمیوں تبدیلی محسوس کی گئی۔اس کے کئی دوست یورپ اور دیگر ممالک میں تھے۔رواں سال شاہد دو سے زائد موقعوں پر ایسا ہوا کہ باہر ممالک سے آئے دوستوں کے ساتھ دیگر دوستوں کا مشترکہ پروگرام رکھا،خود انتظامات کیے اور کئی گھنٹوں تک گپ شپ رہی۔اس فانی دنیا سے رخصت ہونے سے ایک ماہ پہلے وہ جس کسی سے بھی ملتا تو اس کے ساتھ تصویر بنواتا اور ساتھ یہ الفاظ ادا کرتا کہ ”موت کا کوئی پتہ نہیں کیا پتہ میری آپ کے کے ساتھ یہ آخری تصویر ہو“۔ہر کوئی اس کی اس بات کو مذاق میں اڑا دیتا۔شاید کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ آبشار کو غیب سے اشارہ ہو چکا ہے لیکن اس کے منہ پر بس ایک مہر ثبت تھی کہ وہ پوری بات کسی کو بتا نہیں سکتا۔اس کی اس بے وقت موت کا ہر کسی کو دکھ ہے اور ہر وہ شخص جو اس کے ساتھ ایک دفعہ ملا ہے اس کے منہ سے ایک ہی طرح کے الفاظ نکلتے تھے اور اب بھی نکلتے ہیں کہ ”مرحوم بہت اعلیٰ خوبیوں کا مالک تھا اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے“۔میری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور مرحوم کے لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں