سیاست کی ریاضت اسے گھٹی میں ملی۔ ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت و مزاحمت کا درس بھی اسے پدری آغوش سے حاصل ہوا۔ درس بغاوت نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا اس مرد درویش کے حصے میں بھی آیا ۔اس علاقے کے مکینوں کی ایک ریت روایت لمبے عرصے سے مزاحمت اور بغاوت کی چلی آرہی ہے۔ سر اٹھا کر جینے کی ریت کا درس ہمیں اپنے مذہب سے بھی ملتا ہے۔ ہمارے آباواجداد بھی خوش قسمتی سے ہر ظالم کو مزاحمت اور ٹکر دیتے آئے ہیں۔ ایسے ھی اہل وفا نے جب پورے کشمیر کو آزادی دلانے کے لیے ڈوگرا رجیم کے خلاف اعلان بغاوت کیا تو ہر شخص نے اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق وطن کی فضاؤں کو غلامی سے نکالنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ سردار ابراہیم خان صاحب اور دیگر اکابرین نے بھی سیاسی اور عسکری محاذ پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ بدقسمتی سے مختلف سازشوں اور کوتاہ اندیشیوں کی بدولت ریاست کی مکمل آزادی ممکن نہ ہو سکی۔ لیکن الحمدللہ ازاد کشمیر سے ڈوگرا عہد کے جبر کا خاتمہ ہوا۔ اور یہ خطہ آذاد ھوا۔ ریاست کی تعمیر و ترقی اور اس سے آئین اور قانون کے تحت چلانے کے لیے جہاں بہت سے رجال کارکا کردار نمایاں رہا وہیں کے۔ ایچ۔ خورشید بھی اس ریاست کی افق پر بہتر گورننس کے لیے آفتاب اور مہتاب بن کر ابھرے۔ لیکن آزاد کشمیر کی پارلیمانی سیاست میں سردار خالد ابراہیم خان کا نام ایک منفرد سوچ اور تاریخی کردار کا حامل رہا ہے ۔آپ نے سیاسی افق پر اپنی بے مثال اور اعلی آدرشوں کی حامل جدوجہد سے اس خطے کی سیاست کو ایک نئی طرح دینے کی بنیاد ڈالی۔ پارلیمانی سیاست میں خالد ابراہیم صاحب نے نئی روایات کو جنم دیا۔ آپ نے حلقے کی اور ووٹ کی سیاست کو نئے معنی اور مفاہیم عطا کیے۔ ہمارے معاشرے میں ایک طرح کی عصبیت جنم لے چکی ہے کہ میرے مسلک، میری پارٹی، میرے گھر، میرے خاندان کا بندہ ہر صورت میں صحیح ہے۔ یعنی ہم نے حق کو اپنی ذات اور اپنی سوچ میں مقید کر دیا ہے۔ جس سے ہمیں دوسرے کا سچ ، سچ اور اپنا جھوٹ بھی جھوٹ نہیں لگتا۔ ھم بحثیت معاشرہ نرگسیت کا شکار ھو چکے ھیں۔ خالد ابراہیم صاحب عظیم باپ کے عظیم بیٹے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے باپ کے مقام اور اسٹیٹس کو اپنی ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا ۔آپ نے سلطانی میں بھی درویشانہ زندگی گزاری۔ آپ کی ذاتی اور سیاسی زندگی میں لاتعداد قابل تقلید مثالیں موجود ہیں۔آپ نے قانون کی حکمرانی کے لیے عملی مثالیں بھی پیش کیں۔ کشمیر کی مستقبل کے حوالے سے اگرچہ ان کی سوچ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے کردار کی پختگی اور عظمت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔آپ کوے یار سے سوے دار تک عظیم تھے اور عظیم ھی رہے۔ عوام نے خالدابراہیم صاحب سے دل سے محبت کی اور احترام کیا ۔جس کی مثال ان کے جنازے پر عوام کے جم غفیر سے اس صورت میں دیکھی گئی کہ جب راولا کوٹ کی شاہرواں کو اور صابر شہید اسٹیڈیم کو بھی اپنی تنگ دامنی کا احساس ہوا۔ عوام کے جذبات کو ماپنے اور تولنے والا کوئی پیمانہ ہوتا تو یقینا اس کا پلڑا بھی محبت اور مودت کے اگے جھکا ہوتا۔اور اس بات کا غماز ہوتا کہ کردار لافانی ھوتے ھیں ۔ آج ان کی چھٹی برسی پر ہمیں خالد صاحب کی سیاست کو مدنظر رکھ کر کچھ سوالات اپنے آپ سے کرنا یوں گے۔ آپ نے ہمیشہ اداروں کی بہتری کی بات کی اور مسائل کے حل کے لیے اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کی۔ ترقی اداروں کے اپنے فراہض ادا کرنے میں ھہ مضمر ھے۔ آج ہمارے مسائل کی وجہ اداروں کا اپنا فریضہ درست طریقے سر انجام نہ دینے کی وجہ سے ھی ھے۔ دوسری بات کہ خالد صاحب نے اسلام آباد سے سیاست کو کنٹرول کرنے کی مخالفت کی اور اسے سسٹم اور پارلیمانی جمہوریت کے کردار کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا۔ آپ نے ووٹ کے علاوہ کسی بھی قسم کی سہارے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کبھی حمایت نہیں کی۔آپ نے پاکستان میں ذاتی تعلق کو کبھی بھی اپنے اقتدار کی سیڑھی نہیں بنایا۔ آپ نے میرٹ کی بات کی اور کبھی بھی ٹوٹی، کھمبے ، نوکری اور سڑک کو اپنی ممکنہ حد تک ووٹ کے لیے استعمال نہیں ھونے دیا۔ ووٹ کی سیاست میں رہ کر ان ہتھکنڈوں سے بچنا یقینا بہت بڑے اور اعلی کردار کا غماض ہے ۔جو ہر شخص کے نصیب میں کہاں۔ آج میرٹ اور عدل وانصاف بات کرنے والے توچراغ رخ زیبا لے کر بھی نہیں ملتے ۔آج سچ کا قحط ہے۔ اور نواے حق کا بحران ھے۔ پارلیمانی ایوانوں میں ببانگ دہل حق کی بات کرنے والا اب کوی نہیں رہا۔ سیاست کو عوامی خدمت اور فریضہ قرار دینا دینے والا اور اس کے عوض کسی بھی قسم کے معاوضے سے انکار اور پھر اسے عملی طور پر ٹھکرا دینا یقین جانیے یہ کردار قرون اولی کی یاد تازہ کرنے کے مترادف ھے۔کوئ انسان بھی بشری ثقاضوں کے تحت لغزشوں سے ماورا نہیں اللہ پاک ان کی جملہ لغزشوں کو معاف کرے اور عوامی وقار اور خوشحالی کے لیے ان کی جدوجہد کو اللہ پاک قبول فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ ہمیں انسانی مساوات اور وقار اور خودداری کے لیے ان کی اعلی صفات پر مبنی جدوجہد کو پاور پلیٹکس کے حلقوں میں زیر بحث لانا ھو گا۔ اجتماعی بہتری کے ضمن میں ان کی تاریخی اور انقلابی جدوجہد کو بنیاد بناتے ہوئے لوگوں کے لیے آسانیاں تقسیم کرنے کی طرف بڑھنا ھو گا۔ خالد ابراہیم پارلیمانی سیاست کے ترازو میں روایتی معانوں میں اس طرح سے شمار قطار میں نہیں اتے تھے لیکن کردار کی بات ہو، یا جب انکار حسین کی طرح ڈٹ جانے کی بات ہو، ہجوم کے مقابلے میں سچ بول کر تنہا رہ جانے کی بات ہو، حکومتوں کی ایوانوں میں رہ کر فقیرانہ زندگی کی بات ہو، ذاتی زندگی میں کم سے کم پہ گزارا کرنے کی بات ہو، کسی کے اگے ہاتھ نہ پھیلانے کی بات ہو ،قانون کے آگے سر خم کرنے کی بات ہو، یا جب قانون کے نام پر غیر قانونیت کو ٹکر دینے کی بات ہو، انتقامی سیاست اور قبیلائ سیاست سے بالاتر ھونے کی بات ہو تو پھر شاید یہ پیمانے، یہ ضابطے، یہ قائدے یہ کلیے ٹوٹ جائیں جس سے آپ کی عظمت کو ماپا جا سکے۔ ان کے لیے پیمانہ محبت ھے، احترام ہے۔ اور اس ادب اور احترام محبت کا اظہار عوام نے جنازے کی صورت میں ادا کر دیا۔ بقول امام حمد بن حنبل کے ہمارے جنازے ہی ہمارے حق پرہونے کا فیصلہ کریں گے۔ اللہ پاک ان کو غریق رحمت کرے۔ اور ہمیں بھی حق ، انصاف ،قانون اور میرٹ کے مطابق اپنے معاشرے کی نوک پلک سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آج ان کے اجلے کردار کی ضیا پاشیوں سے ھمیں اپنی سیاست کی کل کو درست کرنا ھو گا لوگوں کے اندر اس سسٹم کے خلاف مایوسی ھے۔ اس یاس کو آس میں بدلنے کے لیے ھم سب کو اپنے طرزعمل کو عدل اجتماعی کے قیام کی خاطر لگانا ھو گا۔
سردارخالد ابراہیم…سیاست کا درویش ۔…اظہر محمود لیکچرر اکنامکس
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
0