مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں …….تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
یو ں تو اہل فکر و دانش مدت مدید سے آزاد کشمیر کو سیاسی درسگاہ کہتے سھمجتے ہیں کہ یہاں کا ماحول اور اس کے پروردہ جملہ کردار سیاست و نظریات کی باریکیوں سے کماحقہ شناسائی رکھتے ہیں لیکن گزشتہ ایک دو سالوں سے یہاں سیاست اور اس سے بڑھ کر تحریکوں کا ایسا رواج سراج چل نکلا ہے کہ سیاسی مفکرین بھی ششدر سے ہوں گے ان دو سالوں میں ایک کے بعد دوسری سیاسی تحریک اس بات کا اظہار یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا بحثیت مزا اور انداز بدل رہا ہے ان تحریکوں میں پہلی تحریک عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک ہے جو عوامی مسائل کے حل اور حقوق کے لیے چلائی گئی یہ عوامی تحریک جس کو بے پناہ مقبولیت ملی ہرگز فوری ردعمل یا انفرادی فعل نہ تھی بلکہ کہیں سالوں سے مختلف مواقعوں پر چلنے والی چھوٹی موٹی تحریکوں کا حاصل تھی سستی بجلی اور آٹے پر سبسڈی کا مطالبہ مدتوں سے کھبی دھیمی لے میں کھبی بلند آہنگی سے ہوتا رہا ہے اس حوالے سے ماضی قریب میں پونچھ میں قوم پرست جماعتوں این ایس ایف اور نیپ کے ساتھ پیپلز فورم کے پلیٹ فارم سے چلنے والی تحریک بھی قابل ذکر ہے اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی صغیر خان ایڈووکیٹ کی قیادت میں شروع تحریک بھی ۔۔۔یہ درست ہے کہ ایکشن کمیٹی نے جب اپنی تحریک شروع کی تو قدرت کے خاص کرم کے باعث وہ مناسب وقت تھا پھر ان کے بہتر انداز اخلاص اور محنت نے انہیں بے پناہ عوامی حمایت مہیاء کی اور یوں وہ ابتدائی مقاصد میں کافی حد تک کامیاب ٹھری عوامی ایکشن کمیٹی کی بے پناہ عوامی مقبولیت جہاں روایتی سیاست اور قیادت پر عوام الناس کے عدم اعتماد کا اظہار تھا وہاں ایکشن کمیٹی کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہے عوامی ایکشن کمیٹی نے عوام کے جملہ طبقات کو اپنی آواز سے متاثر کیا اور یوں اسے ہر سمت سے معاونت میسر آئی عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک یوں تو عوامی ضرورتوں اور حقوق سے متعلق تھی لیکن اس دوران کشمیری عوام میں اپنی شناخت کو بحال کرنے کی سوچ اس شدت سے پیدا ہوئی کہ ہر طرف اس سوچ کا شہرہ ہوگیا غور اور سنجیدگی سے دیکھا جائے تو کشمیریت یعنی شناخت سے متعلق سوچ اس تحریک کا ہرگز مقصد نہیں تھا بلکہ یہ By productجو وقت نے کشمیری قوم کی جھولی میں ڈال دیا عوام ایکشن کمیٹی اور عوامی تحریک کا اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں فیصلوں حاصلات اور معاملات سے متعلق بہت سے جھول آسانی سے تلاش کیے جا سکتے ہیں اسی طرح ایکشن کمیٹی کی قیادت کے کہیں ایکشنز پر بھی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے باوجود تحمل وتدبر کے اظہار کہیں نہ خود پسندی انا اور تفاخر کا شدید مظاہرہ کیا ہو لیکن بحیثیت مجموعی یہ ماننا ہوگا کہ اس تحریک سے جہاں عوام کو معاشی ریلیف ملا وہاں ان میں کشمیریت کا عنصر پوری شدت اور حدت سے پیدا ہوا مجھ ایسے کوڑھ مغز کے لیے ثانی الذکر وہ اصل حاصل ہے جس کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک بہر حال ضروری ہے اور اس کا اثبات لازمی ۔۔۔یاد رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کسی ایک نظرے کی مبلغ کے بجائے محض عوامی ضرورتوں اور حقوق کی ترجمانی ہے جس کی اپنی ایک ڈومین ہے لہزا اس کو اپنی حدود میں ہی کام کرنا چائیے اور اس کے مقلدین معاونین اور ناقدین کو بھی ایکشن کمیٹی اس کی حدود اور صلاحیت کو سنجیدگی سے سھمجنا چائیے ہاں ایک بے حد ضروری امر یہ ہے کہ اب جب ایکشن کمیٹی اپنے وجود کو برقرار رکھ کر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے کہ عوامی اعتماد شاید ان کے لیے نئے حوصلوں اور نئی منزلوں کے تعین کا سبب ہے تو پھر اسے اپنی زمہ داریوں کا ادراک اور حالات کی تفہیم کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ اعلی ظرفی اور سھمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ وقتی کامیابی اور ازلی کامرانی نہیں ہوتی اور سیاست اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی لہزا ایکشن کمیٹی کے زمہ داران کا بے حد زمہ دارارنہ طرز عمل اختیار کرنا ہوگا ورنہ انہیں معلوم ہی ہوگا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کے معاونین میں جہاں عوام اور مختلف سیاسی نظریوں اور جماعتوں کے متعلقین شامل ہیں وہاں آزادی پسند تنظیموں اور ان سے وابستہ افراد کی فراخ دلانہ معاونت اور ہمہ جہتی محنت بھی اس حوالہ سے اہم عنصر ہے اس بابت عوامی ایکشن کمیٹی کے زمہ بارہا اعتراف بھی کر چکے ہیں لیکن نجانے کیوں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ایسا ہے جس کا نہ ہونا زیادہ بہتر تھا سو ہر دو اطراف کے سنجیدہ فکر ازھان کو اس جانب توجہ دینا ہوگی عوامی ایکشن کمیٹی کےByproductکے طور پر اپنی پہچان و شناخت کی جس تند لہر نے جنم لیا اس کے اثرات کو نظریے اور تحریک کے لیے مثبت طور پر استعمال کرنا ازادی پسند سیاست و قیادت کا فرض عین ہے اور یقیناً وہ اس جانب متوجہ بھی ہوں گے عوامی ایکشن کمیٹی کی سال بھر سے زاہد تحریک نے کچھ سمے کے لیے “ٹھنکی’ہی لی تھی کہ حکومت نے ایک ایسے بدنما اور سیاہ قانون کو آرڈیننس کی صورت نافزکر کے ایک نئی تحریک کو جنم دیا ہے یہ قانون جس کو صدر ریاست بھی Black lawکہہ چکے کے سامنے آنے کے بعد نئی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے آزادی تنظیموں نے ایک اتحاد کی صورت زمہ داری اٹھائی اس تحریک کا آغاز راولاکوٹ سے ہوا اور حکومت نے طاقت کے استعمال سے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی راولاکوٹ عجب مزاج کا شہر ہے اور یہاں کے ماسیروں کے تیور ہی الگ ہیں حکومتی طاقت کا استعمال اور پولیس فورس کی کارروائی ہمیشہ سے ان کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے سو اب کی بار بھی یہی ہوا پولیس کو پہلے احتجاج کو روکنے میں ناکامی ہوئی پھر گرفتاریوں کا ڈول ڈالا گیا اور اس سے بھی کچھ فرق نہ پڑا راولاکوٹ کے بعد کھائی گلہ تراڑکھل میں بھرپور احتجاج ہوا اور پھر کوٹلی کی باری آئی تو انہوں نے ساری کسر نکال دی اب دوبارہ گھوم کر 22نومبر کو مظفرآباد ہجیرہ اور تھوراڑ کے ساتھ راولاکوٹ کو کچھ کرنے کا کہا گیا تو باقی تینوں شہروں کے بےحد کامیاب احتجاج کے سنگ سنگ راولاکوٹ نے وہ رنگ دکھایا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی بلاشبہ ہزاروں لوگ جس خاموشی اور سلیقے سے احتجاج کا حصہ بنے یہ ایک نئی تاریخ ہے لوگوں کا اس بڑی تعداد میں لبیک کہنا آزادی پسند سیاست اور قیادت کی محنتوں کا ثمر بھی ہے کہ یقیناً برسہا برس سخت محنت کی ہوگی کھائی گلہ کوٹلی مظفرآباد ہجیرہ تھوراڑ اور پھر راولاکوٹ کے لوگوں نے پولیس گردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ازادی پسند تنظیموں کی اپیل پر لوگوں نے جس جزبے سے احتجاج کیا وہ حیران کن بھی ہے اور آزادی پسند سیاست اور قیادت کے لیے کڑا امتحان بھی آزادی پسند قیادت اور سیاست کو عوام کے اس اعتماد کی قدر کرنا ہوگی اور لوگوں کو ان کے جزبوں کو اور ان کی ہمتوں کو سنیت سھنبال کر رکھنا آزادی پسند سیاست اور قیادت کو اخلاص زہانت اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کر کے ماضی کے اختلافات اور مناقشات سے صرف نظر کرنا ہوگا انہیں اپنی خود پسندی انا اور خود غرضی ایسی برائیوں سے بچنا ہوگا اور ساتھ ساتھ ادق فلسفوں میں الھج کر مہم جوئی کی راہ پر جانے سے گریز کرتے ہوئے زمینی حقائق عوامی عقائد لوگوں کے رویوں و جذبات کی تفہیم کرنا ہوگی اور توقیر بھی اسی طرح آزادی پسند سیاست اور قیادت کو غیر ضروری مباحث میں الھجنے کے بجائےخوش اخلاقی سھمجداری اور ظرف کی راہ پر چلنا ہوگا کہ یہی راستہ انہیں منزل پر لے جائے گا یہاں یہ کہنا بھی حق ہے (اور ہر کسی کو اس رائے سے اختلاف کا بھی حق ہے)کہ اگر عوامی ایکشن کمیٹی اور آزادی پسند قیادت ایک بار پھر اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے اپنے طے مقاصد کے لیے باہمی مفاہمت اور معاونت کے زریعے آ گے بڑھیں تو شاید بہت کچھ آسان ہو سکتا ہے وہ جو کہا جاتا ہے”مظلوموں کے درمیان فطری اتحاد ہوتا ہے”تو اسی اصول کو سامنے رکھ کر ماضی کی غلطیوں کو اصلاح و معافی کی عملی سوچ کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ دئیے جائیں تو ایک اکیلا ایک ایک گیارہ والی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جو یقیناً”نفع بخش”ثابت ہوسکتی ہے ہاں تو چلتے چلتے عوامی ایکشن کمیٹی کے زمہ داران سے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ “سب ٹھیک ہے”کی سوچ کو رد کرتے ہوئے “مشاورت میں بہتری”کے عمل پر چلا یا جائے تو ست خیراں ہوں گی ایسے ہی آزادی پسند سیاست اور قیادت کو حالیہ دنوں میں ملنے والی پذیرائی کو خود کے لیے کڑا امتحان اور آزمائش جان کر تدبر تفکر اور وسیع النظری کی اساس پر تحریک کی عمارت کو کھڑا کرنا کہ انہیں معلوم ہوگا کہ لوگوں کے خواب جب ریزہ ریزہ ہوتے ہیں تو ان کی کرچیاں دلوں کو لہو لہان کر دیتے ہیں آگے آپ سب خود سیانے بہانے ہیں ۔۔۔بے حد سیانے ۔۔۔۔ازادی پسند سیاست اور قیادت کئی دہائیوں سے مسلسل عمل کی بھٹی سے گزر آئی ہے وہ ٹھنڈے گرم کے آشنا ہیں ان میں سیاسی تجربہ بہت زیادہ ہے نیز ان کے نظریات میں وقت کے حوالے سے بہت جان ہے وہ مقتدر حلقوں کی مداخلت کے طریقہ ہائے کار سے بھی آگاہ ہوں گے لہزا ان کی زمہ داری نسبتاً زیادہ بنتی ہے کہ ان کی سوچ کے لیے جو spaceپیدا ہوئی ہے اسے کسی بھی طرح ضائع نہ ہونے دیں دعا ہے کہ وہ اس معاملے میں تدبر کو رہبر کریں اور آگے بڑھی اور ہر دو تحریکوں کے زمہ داران کو احساس رہنا چاہیے کہ وہ کسی نادیدہ عمل کے زیر اثر آپس میںRaceتو نہیں لگا رہے کہ ایسی raceکا ایک حاصل گہری کھائی بھی ہوتی ہے
آزاد ی پسند سیاست اور قیادت کا کڑا امتحان …. ڈاکٹر صغیر خان
0