جموں و کشمیر کی ہونہار و ذہن بیٹی زجاجہ شیخ جاپان یونیورسٹی آف “رِتسومیكان ایشین پیسفک” اوئیتا، بیپو، میں زیر تعلیم اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی منتخب صدر ہیں، زجاجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس سے سوال کیا ہے کہ “میں کون ہوں؟ کیا میں بھارتی ہوں، پاکستانی ہوں، یا کشمیری” زجاجہ جاپان کی اس نامور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہزاروں نوجوانوں کی منتخب لیڈر ہونے کے باوجود اپنی شناخت کی تلاش میں ہے۔ وہ شعور اور قیادت کی ان بلندیوں پر پہنچ کر بھی محسوس کرتی ہے کہ اس کی ہزاروں سال پرانی تاریخ مسخ اور شناخت گم ہو گئی۔ وہ اس کھوئی ہوئی شناخت کی تلاش میں جاپان سے نیویارک میں بڑے ایوان کے دروازے پر دستخط دی ہے، جہاں سے عالمی حکمرانوں نے 77 سال پہلے اس کی شناخت کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ اب وہ ایک نئے اور ترقی یافتہ ملک میں آئی ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی قائد ہے، لیکن لوگ اسے نہیں جانتے کہ وہ کون اور کہاں سے ہے۔ اسے اس بات کی بھی تشویش ہے کہ اس کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم اس کے ہم وطنوں میں سے کوئی بھارتی ہے، کوئی پاکستانی اور کوئی کشمیری کہلاتاہے۔ اس صورت حال میں ایک سمجھدار ذی شعور اور تعلیم یافتہ حساس دل زجاجہ شیخ کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ وہ کون ہے دشوار ہی نہیں مشکل بھی ہے۔ زجاجہ شیخ ذہن بھی ہے قائد بھی، اس نے میٹرک پاس کرتے ہی جاپان ملٹی نیشنل پروگرام کے تحت ریجن کی نمائندگی کی، اور تقریباً 6 ماہ جاپان کے مختلف شہروں میں اپنی علاقائی ثقافت اور معاشرتی زندگی کو اجاگر کیا۔ اسلام آباد میں رہائش پذیر آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے رکن شیخ ماجد کی صاحبزادی اور ماہر کشمیریات و سنئیر صحافی راجہ فیاض کی بھانجی ہیں۔ زجاجہ کی نانی کا تعلق جموں و کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے ہے۔ جب کہ اس کی ماں اعلی تعلیم یافتہ، اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ زجاجہ شیخ ایف ایس سی سال دوم کے نتیجے سے قبل ہی 2022ء میں ایشن پیسفک یونیورسٹی اوئیٹا میں اسکالرشپ پر داخلہ حاصل کر چکی تھی جب وہ ابھی ٹین ایجر تھی۔ اس وقت وہ یونیورسٹی میں بی ایس ایکنامکس کے تیسرے سال میں اور یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر ہیں ۔ زجاجہ کئی مرتبہ ٹوکیو یونیورسٹی میں اپنی یونیورسٹی کی نمائندگی کر چکی ہیں ۔اسی سال جون میں ہیروشیما ناگاساکی کا دورہ کیا جہاں اس نے امن کا جھنڈا لہرایا۔ زجاجہ شیخ کو ان نوجوانوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے جنہوں نے آئندہ دنیا کی قیادت کرنی ہے۔ لیکن وہ اپنی پوزیشن جانتے ہوئے بھی سمجھتی ہے کہ اسے شناخت پھر بھی نہ مل سکی کہ وہ کس ملک میں کس قوم کی قیادت کرے گی اس کا ملک تقسیم در تقسیم اور قوم غلام در غلام ہے۔ جموں و کشمیر کی اس نوجوان رہنماء کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو لکھے گئے خط نے شیخ عبداللہ، چوہدری غلام عباس اور علی گیلانی کے سیاسی نظریات کو بھی چیلنج کیا ہے جو 77 سال سے جموں و کشمیر کے دو کروڑ سے زائد کشمیریوں کی شناخت کو ختم کر کے نئی شناخت کے حصول میں ہیں ۔۔ جموں و کشمیر نوجوان خواہ وہ کسی بھی خطے سے ہوں اپنے بزرگوں کے کئے پر پشیماں ہیں جنہوں نے تھوڑے سے ذاتی فائدے کے لیے کشمیری شناخت کو ختم کر دیا۔۔ زجاجہ شیخ جموں و کشمیر کی نئی نسل کی نمائندہ رہنماء ہیں جو کم عمری میں ہی عالمی رہنماؤں سے تبادلہ خیال کرتی ہیں تب اس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں؟ کہاں سے ہیں؟ 8 نومبر 2024ء کو زجاجہ شیخ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو نوجوان قائد کے طور پر جو خط لکھ اس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
جناب انتونیو گوتریس سیکریٹری جنرلاقوام متحدہ اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرنیویارک، امریکہ
موضوع: میں کون ہوں؟
محترم جناب سیکریٹری جنرل:
میں بحثیت کشمیری لاکھوں کشمیریوں کی اجتماعی آواز کے ساتھ جو دہائیوں سے انصاف اور امن کے منتظر ہیں آپ کو خط لکھ رہی ہوں، میرا وطن “جموں و کشمیر” جو ارضِ خداوندی پر جنت کے طور پر پہچانا جاتا تھا، بدقسمتی سے مسلسل تکلیف اور مایوسی کی علامت بن چکا ہے۔
ہم کشمیریوں کی شناخت مسلط شدہ اصطلاحات کے تحت دھندلا دی گئی ہے: کوئی “پاکستانی زیر انتظام کشمیر”، کوئی “بھارتی زیر انتظام کشمیر”، کوئی “پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر”، کوئی “بھارت کے زیر قبضہ کشمیر”، کوئی “آزاد کشمیر”، کوئی مقبوضہ کشمیر کوئی”اٹوٹ انگ”، اور کوئی “شہ رگ” کی راگ الاپتا ہے۔ یہ الفاظ جغرافیائی، سیاسی حریفیں کی عکاسی کرتے ہیں لیکن انسانیت اور کشمیریوں کی اصل حقیقت کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
میرا وطن ارضِ کشمیر خون میں غلطان ہے، اور میرے ہم وطن ظلم و جبر اور محرومی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ تقریباً 80 سال سے کشمیری بیگانگی اور مصائب کے شکار ہیں جب کہ دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔۔۔۔
اس دائمی المیے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ تقسیم کے معمار ہیں جنہوں نے اس تنازعہ کے بیج بوئے؟ کیا یہ اقوام متحدہ ہے، جو کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت کی ضمانت دینے والی قراردادوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہی؟ یا یہ بھارت اور پاکستان کے منصوبے ہیں جنہوں نے ہمیں کشمیریوں کو اپنی اسٹریٹجک رقابتوں کے مہرے بنادیا؟
اقوام متحدہ انسانی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لئے قائم کیا گیا تھا لیکن کشمیری عوام سے کئے گئے وعدے اب تک ادھورے ہیں اور اس کی قراردادیں فائلوں میں دفن ہوچکی ہیں۔ اس بے عملی نے کشمیریوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے ہماری شناخت کو مٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ہم نہ بھارتی ہیں نہ پاکستانی بلکہ درد اور بے وطنی کی حالت میں گرفتار دھوکہ دئیے گئے کشمیری ہیں۔ جناب سیکریٹری جنرل، میں عاجزی کے ساتھ آپ سے سوال کرتی ہوں: – میں کون ہوں؟ کیا میں بھارتی ہوں، پاکستانی ہوں، یا کشمیری؟۔ میرے ہم وطنوں کے دہائیوں پر محیط دکھوں کا ذمہ دار کون ہوگا؟ـ لاکھوں کشمیریوں کو موت کی سولی پر چڑھانے والے کون ہیں؟ـ ہمیں مسلسل نظر انداز کئے جانے اور ظلم و ستم کا حساب کون دے گا؟ ـ میرے وطن میں انصاف اور امن کون لائے گا؟۔۔ایک کشمیری کے طور پر، میں اقوام متحدہ سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ کشمیر پر اپنی قراردادوں پر فوری عملدرآمد نہ صرف ضروری ہے بلکہ ایک اخلاقی فرض بھی ہے۔ میرے ہم وطنوں پر روزانہ ہونے والے تشدد اور ظلم کو ختم کریں۔ تسلیم کریں کہ حق خود ارادیت کوئی مراعات نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے، جو ہم کشمیریوں کو دنیا کے کسی بھی دوسرے انسان کی طرح حاصل ہونا چاہیے۔ دنیا دیکھ رہی ہے اور تاریخ اقوام متحدہ کا فیصلہ اس کے عمل یا خاموشی سے کرے گی۔ وقت آگیا ہے کہ کشمیریوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے اور ان اصولوں پر اعتماد بحال کریں جن پر یہ تنظیم “اقوامِ متحدہ” قائم کی گئی تھی۔ جناب، میں آپ سے دوبارہ سوال کرتی ہوں: “میں کون ہوں؟” مجھے کب تک اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹکنا پڑے گا؟ مجھے وہ واپس لوٹا دیں جو میرا حق ہے۔ امید اور عجلت کے ساتھ
زجاجہ شیخ۔
صدر یونین آف، رِتسومیكان ایشین پیسفک یونیورسٹی
اوئیتا، بیپو، جاپان۔
واضح رہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے شہریوں اور مقیم پاکستان مہاجرین جموں و کشمیر کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے قومیت کے خانے میں سرخ سیاہی سے “باشدہ آزاد ریاست جموں و کشمیر ” لکھا جاتا تھا جو اب ختم کر دیا گیا ہے۔ اس پر سیاسی فرنچائز نے کیا بات کرنی ہے قوم پرست بھی خاموش ہیں۔۔۔۔
میں کون ہوں؟ کشمیر کی بیٹی کا گوتریس سے سوال۔۔بشیر سدوزئی
0