پرنس کریم آغا خان کی وفات،ایک المیہ۔۔۔۔سردار مہتاب احمد خان

0

دوسروں کے درد کو محسوس کرنے والے ہی درحقیقت انسانیت کے منصب پر فائض ہو سکتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا جینا مرنا دوسروں کے لیے ہو، وہ عظمت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔ ہم اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی شخصیات مل جاتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان رشک کرتا ہے۔ محروم عبدالستار ایدھی، مادام رتھ فاؤ اور مدر ٹریسا کو آج دنیا عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، کہ انہوں نے مذہب رنگ ونسل سے ماورا ہو کر انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور لوگوں کے دکھوں کا درماں بننے کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیا۔ آج بھی یہ شخصیات دوسری دنیا میں جانے کے بعد کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان شخصیات نے ثابت کیا کہ انسان صرف اپنے کام سے جانا جاتا ہے۔ اگر اپ اللہ کی مخلوق کی بے لوث ہو کر خدمت کریں گے تو اللہ تعالی کبھی بھی آپ کو بے نام نہیں ہونے دے گا۔ رب العزت نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کے بعد دو قسم کے کام اس کے سپرد کر دیے؛ پہلے کام کو حقوق اللہ اور دوسرے کام کو حقوق العباد کے نام سے پکارا گیا۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ وہ عبادتیں ہیں جو حقوق اللہ کے زمرے میں آتی ہیں جبکہ اللہ کے بندوں کی دل جوئی، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، ان کے حقوق ادا کرنا حقوق العباد میں شامل ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالی نے پھر واضح کر دیا کہ وہ اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے لیکن حقوق العباد کی معافی وہ نہیں دے سکتا۔ اس کی معافی وہی دے سکتا ہے جس کی آپ نے حق تلفی کی ہو یا کسی اور طریقے سے اس کا دل دکھایا ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حقوق العباد یا دوسروں کے کام آنے کی ہمارے مذہب میں کتنی اہمیت ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایک اچھا انسان اپنے اخلاق کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وجہ تخلیق کائنات انسان کی فلاح و بہبود اور اس کی دنیاوی خیریت اور آخروی نجات کے لیے ہے۔ تاکہ وہ اعلیٰ مقام انسانیت حاصل کر سکے۔ تخلیق کائنات کے بعد اربوں انسان اس دنیا میں آئے اور چلے گئے لیکن زندہ صرف وہ رہ گئے جنہوں نے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کر دیا۔ اگر اس تمہید کے ساتھ میں اپنے اصل موضوع پر بات کروں تو کچھ دن پہلے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یہ خبر میری نظر سے گزری کہ پرنس کریم آغا خان چہارم اب اس عارضی دنیا میں نہیں رہے۔ شہزادہ کریم آغا خان جنہیں شاہ کریم الحسینی(پرنس کریم الحسینی) یا آ غا خان چہارم بھی کہا جاتا تھا اسماعیلی مسلمانوں کے سب سے بڑے گروہ نزاریہ اسماعیلیہ(آغا خانیوں) کے 49 ویں امام تھے۔ آپ 13 دسمبر 1936ء کو سوئزر لینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ 1957ء کو آ غا خان سوم کی وفات کے بعد پرنس کریم آغا خان کو امام بنایا گیا۔ شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم اسماعیلی فرقے کے سب سے بڑے گروہ نزاریہ قاسمیہ جو اب آغا خانی یا اسماعیلی فرقہ ہے۔ یہ فرقہ شیعہ مسلمانوں کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اسماعیلیہ فرقے کی سب سے بڑی شاخ جو آ غا خان کی پیروکار ہے، وہ نزاریہ اسماعیلی ہے جو تقریبا دو تہاء اسماعیلیوں پر مشتمل ہے، اسماعیلیوں کا دوسرا بڑا گروہ بوہرہ جماعت ہے جن میں امامت کے بجائے دائی المطلق کا سلسلہ ہے اور وہ آ غا خان کو امام نہیں مانتے۔ آغا خان چہارم اسماعیلیوں کے 49 ویں امام تھے۔ اسماعیلیوں (آغا خانیوں) کا عقیدہ ہے کہ امام آ غا خان کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے تمام اختیارات حاصل ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں آغا خان چہارم کی زندگی کے متعلق مزید لکھوں میں سر آغا خان سوم سلطان محمد شاہ کے متعلق ان کی زندگی پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔ سر آ غا خان سوم نومبر 1877 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ اسماعیلی فرقے کے اماموں کو آغا خان کے نام سے پکارا جاتا ہے جبکہ ان کے پیروکار آ غا خانی یا اسماعیلی کہلاتے ہیں۔ سر سلطان محمد شاہ بن امام آغا علی شاہ اسماعیلیہ فرقے کے 48 ویں امام تھے آپ نے تقریبا 70 سال امامت کی جو کہ اسماعیلی اماموں میں کسی بھی امام کی طولانی امامت ہے۔ انہوں نے پہلی عالمگیر جنگ میں برطانیہ کی مدد کی جس کے صلے میں سر اور ہز ہائنس کے خطابات ملے اور 11 توپوں کی سلامی مقرر ہوئی۔ فارسی، عربی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے ماہر عظیم، مدبر اور سیاستدان تھے۔ 1906ء سے 1912ء تک مسلم لیگ کے صدر رہے 1930ء اور 1931ء میں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ 1934ء میں برطانیہ کی پروی کونسل میں لیے گئے۔ 1937ء میں جمیعت الاقوام کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے مرید تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جینوا میں انتقال کیا اور وصیت کے مطابق اسوان مصر میں دفن ہوئے۔ ان کے دو بیٹے ہوئے؛ شہزادہ علی اور شہزادہ صدرالدین مگر ان کی وصیت کے مطابق شہزادہ علی کے بیٹے شہزادہ کریم ان کی جانشین مقرر ہوئے جو آغا خان چہارم کہلائے۔ آغا خان سوم کی قیادت میں برصغیر پاک و ہند میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں بھی سر آغا خان کا ایک کردار رہا ہے اور محروم آغا خان کے بقول بہت سے ادارے آغا خان فاؤنڈیشن کی شکل میں قائم کیے گئے۔ آج آ غا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے زیر اہتمام سینکڑوں کی تعداد میں آغا خان سکول قائم ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہے ان سکولوں میں 16 ہزار اساتذہ درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ آ غا خان ہیلتھ سروس کے تحت 120 ہیلتھ یونٹ کام کر رہے ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں حفظان صحت کی خدمات کے علاوہ میڈیسن اور نرسنگ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں جب میں کراچی یونیورسٹی میں ماسٹر کا سٹوڈنٹ تھا تو میں آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کا وزٹ کیا کرتا تھا 90 کی دہائی میں یہ قابل تعریف اور قابل تقلید ادارہ تھا اور اس کی لائبریری اپنی مثال آپ تھی۔ ہمارے ایک سینیئر موسیٰ خان جن کا تعلق ہنزہ ویلی کریم آباد سے تھا وہ ہمیں باقاعدگی سے ہر ماہ آغا خان یونیورسٹی لائبریری کا وزٹ کرایا کرتے تھے۔ 90 کی دہائی میں آغا خان یونیورسٹی میں امریکن سٹینڈرڈ کے مطابق کام کیا جاتا تھا۔2024ء کو راقم کو شمالی علاقہ جات سکردو، گلگت اور ہنزہ ویلی کریم آباد کی وزٹ کا موقع ملا اور قلعہ التیت وزٹ کیا تو آغا خان اول، دوم، سوم اور چہارم کی تصویریں قلعہ میں نصب تھی۔ اس کے علاوہ آ غا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت بہت سے پروجیکٹوں پر کام کیا گیا تھا۔ کریم آباد میں اس کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ اسماعیلیوں یا آغاخانیوں کی زیادہ تر تعداد ہنزہ ویلی کریم آباد، گلگت، سکردو اور پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی بندرگاہی شہر کراچی میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں تقریبا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ اسماعیلی نزاریہ فرقے کے ماننے والے موجود ہیں۔ جب ایوب خان کے دور میں گوادر کو مسقط عمان سے پاکستان میں شامل کیا گیا تو سر آغا خان نے عمان کو اس کی قیمت ادا کی۔اسی طرح آغا خان چہارم پرنس کریم پرتگال کے شہر لزبن میں مقیم تھے اور پوری دنیا کے اسماعیلیوں کے چوتھے آ غا خان اور 49 ویں امام تھے۔ چار فروری 2025ء کو لزبن میں آپ اس دنیا فانی سے دوسرے جہاں منتقل ہو گئے۔ پاکستان میں جب یہ خبر پھیلی تو سرکاری سطح پر سوگ کا دن منایا گیا اور یہ سوگ کا دن آٹھ فروری 2025کو بنایا گیا۔ آ زاد کشمیر میں بھی یہ دن سرکاری سطح پر بنایا گیا۔ آپ ایک ایسے درد دل رکھنے والے انسان تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے فرقے بلکہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے،ان کی فلاح و بہبود کے لیے آ غا خان فاؤنڈیشن کے ذریعے
بہت سے کام کیے اور یہ کام رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے۔ ان کی وفات پاکستان کے لیے ایک المیہ سے کم نہیں۔ان کے انتقال کے بعد پرنس رحیم آغا خان کو 50 واں امام مقرر کر دیا گیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ جس طرح پچھلے اماموں نے نہ صرف اپنے فرقے کے لیے بلکہ انسانیت کی بھلائی کے لیے جتنے کام کیے ان کو پرنس رحیم آغا خان بھی جاری رکھیں گے۔اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر عطا فرمائے۔امین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں