”کرناہ“نگینہ اور شاردا کشمیر کی پہچان… پروفیسر ڈاکٹرنصر اللہ خان ناصر

0

جغرافیائی بڑے بڑے حلقوں میں کرناہ karnahہمہ جہت رابطوں کا محور تھا۔ آج یہ محور جبر کے ہاتھوں تین حصوں میں منقسم ہے۔ اول آزاد کرناہ یعنی لیپا lipaکرناہ دوم مقبوضہ کرناہ)ٹنکڈھار ویلی) سوم نیلم ویلی (کش گنگا ویلی)مسلم دور اقتدار میں نیلم ویلی /شاردہ ڈسٹرکٹ کرناہ کا حصہ رہی ہے اقتدار اور جغرافیائی ضرورت کے تحت قدیم دور مین ایک بڑے حلقے کو ڈسٹرکٹ کہا جاتا رہا ہے۔ دسٹرکٹ کرناہ لوکیشن کے اعتبار سے کشمیر کے شمال مغرب میں ہے۔ 34.14عرض البلد اور 73.50 طول البلد پر واقعہ ہے، غیر منقسم کرناہ سے شمالی علاقوں کے راستے چین اور روس سے رابطہ رہا ہے۔ادھر براستہ مظفرآباد، صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب آمدورفت جاری رہی، آج صرف آزاد کرناہ براستہ دواربدی (سابق دوارہ پتی)مظفرآباد رابطہ جاری ہے۔ لیپا کرناہ مین موضع موجی اوربمقام کہیاں kehyanکورووں پانڈووں کی تعمیرات کی باقیات موجود ہیں۔ شاردہ پترتھ میں استعمال بھاری بھرکم سلوں کی طرح لیپا کرناہ کی تعمیراتی باقیات کو دیوؤں یا جنوں کی کارستانی سمجھا جاتا رہاہے۔ آزاد کرناہ سے براستہ چھم کوٹ مقبوضہ کرناہ، اور توت حار،قاضی ناگ، کاندلان دروں کے راستہ کشمیر سرینگر، بارہمولہ سے رابطہ تھا۔ پنجال، شیر گلی اور برتھواڑ دروں براستہ ریشیان نیلی پھر لوگوں کا مظفرآباد اور آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں اور پاکستان سے ہمہ وقت رابطہ ممکن ہے۔ براستہ موجی،پنجکوٹ اور نوسیری کے راستے نہ صرف نیلم ویلی بلکہ مظفرآباداور صوبہ سرحد سے رابطہ رہتا ہے۔
موجودہ آزاد کرناہ سے آسان اور مختصر روٹ براستہ مقبوضہ ٹیٹوال آزادی نوسیر صرف دو گھنٹے میں مظفرآباد پہنچا جا سکتا تھا۔ لیکن 1947ء کے بعد براستہ ریشیان، دواریدی (دوارہ پتی) تقریباََ چالیس میل لیکن ُپر خطر پیدل سفر اختیار کر کے نیلی سڑک پر پہنچا جاتا ہے۔ اب بھی سردیوں میں ریشیاں سے لیپہ 10ہزار فٹ بلند برفانی پہاڑ عبور کرنا پڑتا ہے اس لئے ٹنل Tunnal آزاد کرناہ کی ناگزیر ضرورت ہے۔
تاریخی طور پر کرناہ بہت سخت جان اور ذہن و مطین دھرتی ہے۔ قدیم دور خاص کر سکھون ڈوگرہ انگریز مشترکہ قوت سے کرناہ کے بہادر لوگوں نے جتنی جنگیں لڑی ہیں اتنی کشمیر کے کسی حصے میں نہیں لڑی گئیں۔ غازی شہید راجہ شیر احمد خان 22بار باطل قوتوں سے ٹکرائے ہیں۔ کرناہ نے ریاستی سطح پر دینی، علمی، ادبی اور تحقیقی میدان میں نہ صرف ریاست اور برصغیر بلکہ بین لاقوامی شہرت کے ایل علم و دانش پیدا کئے۔ پی ایچ ڈی ریسرچ کے دوران میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالروف خان مغل نے ریاضی Math اور پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ ناصر نے لسانیائی سائنس کے شعبہ علم الاصولات Phoniticsمیں فارمولے ایجاد کیے ہیں۔
تاریخی جغرافیائی اہمیت کے علاوہ اعلیٰ ترین قسم لکڑ خاص کر دیودار، برمجی، بھوج پتر (پُرزی) قدرتی کاغذ، شکار بالخصوص مُشکِ نافہ والے ہر ن اور مرغ زریں کے علاوہ دان گیر دنیا کی نایاب ترین نسلیں پائی جاتی ہیں۔ پیداوار خفیہ خاص کر کٹھ، ترہ پترہ مشہور عالم جڑی بوٹیاں قومی اثاثے ہیں۔ مشروم(گچھی)، شہد، اخروٹ، سیب وغیرہ لذت دہن میں ثانی نہیں رکھتے۔
قدم کرناہ میں شاردا مندر اور شاردا قلعہ بہت مشہور ہیں۔ کلچرآرٹ اینڈ لینگو جزا کیڈمی سرینگر نے شاردا کو بدھی تعمیر اور تعلیم و تربیت کی قدیم یونیورسٹی قرار دیا ہے لیکن میجر سی بی بیٹس (C.B.BEATS)کی معروف کتاب کزیٹیئر آف کشمیر کی تفصیلات کے مطابق شادرہ میں یہ تیرتھ بدھی اسٹوپہ نہیں ہے۔ بلکہ ہندومندر تھا۔ ڈاکٹر اسٹائن اس مندر کی ساخت کشمیری طرز کی بتاتے ہیں۔ جند ربان پنڈت کے بیان کے مطابق سر آرل اسٹائن لکھتے ہیں کہ مسلم دور میں کرناہ کے مسلم بمبہ Bamba راجاؤں کی خود مختار حکومت کے دوران مندر کے ایک خانے میں بارود میں آگ لگنے سے اس مندر کی چھت اڑ گئی تھی۔ 1872ء میں میجر بیٹس کی تحریر کے مطابق کرنیل کنڈو ضلع دار مظفرآباد نے اس مندر کی مرمت کروائی تھی۔ مترجم و شارح ڈاکٹر اسٹائن راج ترنگنی کے ضمیمہ نوٹ کی صورت مین واضح کرتے ہیں کہ مندر کے حجرہ کی ظاہری شکل و صورت جسامت اور آرائش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مندر بہت قدیم زمانے سے تعلق نہیں رکھتا۔ڈاکٹر اسٹائن اس کی تعمیر راجا بھوج کا زمانہ یا گیارھویں صدی بتاتے ہیں۔ البیرونی شاردہ کا ذکر حالات کشمیر میں نہیں کرتا، اس نے ہندوؤں کی مشہور مورتیوں کے تذکرے میں شاردہ کی نشاندھی کی ہے۔ پنڈت کلہن نے اپنی علمی کاوشوں کو دیوی شاردا کی برکت منسوب کیا ہے۔ معروف محقق پروفیسر بوہلر Bhuhler نے شاردہ مندر سے مسودات حاصل کرنے کی داستان پر تفصیلی بحث کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں پراکرت گرائمر تیار کرنے کیلئے والی گجرات راجا جیے سنگھ نے مشہور اور عطیم فاضل ھیم چندر کی خدمات حاصل کیں۔ ھم چندر کی نشاندھی پر والئی گجرات نے قواعد کے آٹھ پرانے مسودات شاردا مندر سے حاصل کیے۔ ”پربھاوک چتر“نامی کتاب میں جو قصہ مشہور ہے اس کے بارے میں پریفیسر ’بوہلر‘ اور ڈاکٹر اسٹائن لکگتے ہیں کہ خواہ اس واقعہ میں مبالغہ آرائی ہی کیوں نہ ہو لیکن شاردا کی علمی فضیلت سے کسی کو انکار نہیں اورطرہ یہ کہ پورے کشمیر کو شاردا کا ملک کہ کر پہچاننا اور متعارف کروانا عام تھا۔ سولہویں صدی میں شاردا کی علمی اور مذہبی شہرت کے بارے میں ابو الفضل نے آئین اکبر ی کی جلد دوئم میں مختصر اشارہ کیا ہے۔
اس تیرتھ کی یاترا مغل اور افغان عمل دخل کے علاوہ بقول ڈاکٹر اسٹائن بمبہ فبیلہ (Bomba)کے خود مختار تسلط کی وجہ سے ختم ہو گئی۔البتہ سلطان شیر احمد خان والئی کرناہ کی وفات کے بعد ڈوگرہ دور میں یا تری دوبارہ آنے جانے لگے۔ یہاں ہی بقول ڈاکٹر اچھر چند چوکورو ضع اور سنگریزوں کا بنا ہوا ایک قلعہ ہے جسے دریائے مدہوتی کے بائیں کنارے پر مہاراجہ گلاب سنگھ کے عہد میں حفاظتی اقدامات کے لئے وقف تھا۔ اس قلعے سے بیشتر ایک اور قلعے کا سراغ سٹائین نے شارداا مندر کو دیکھنے کے دوران لگایا جو بقول سٹائین ”ڈامرالنکارچکر“کا قلعہ تھا اسی قلعے میں لوتھن اور باغی راجکمار پناہ گزیں ہوئے تھے۔ کشمیر کلچرل اکیڈمی سرینگر والوں نے شادرہ میں بدھی تعلیم کی نشاندہی کے ساتھ براعظم پاک و ہند کے مشہور قدیم رسم لاحظ ”ساردا‘[ کا مولد منبع اسی شاردا کو قرار دیا ہے۔ کرناہ، دراوہ، سلاطین بمبہ کے دور میں ایک سٹیٹ تھی۔ اس دھرتی کے لوگ ذہانت اور بہادری میں ریاست جموں و کشمیر میں صف اول میں شمار ہوتے ہیں، سلطان شیر احمد خانؒ کی سرگردمی میں کرناہ کے بہادر جنگجوؤں نے سکھوں، ڈوگروں اور ڈوگرہ انگریز مشترکہ اقوام سے 22 جنگیں لڑی، روزنامہ جنگ اور روزنامہ نوائے وقت کی تحقیق کے مطابق بیشتر جنگوں میں فتح حاصل کی۔ علمی میدان میں یہاں کے سکالر کشمیر سرینگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر اور سیکرٹری کے عہدوں پر فائز رہے آزاد کشمیر دو سکالرز ڈاکٹر عبدالرؤف خان اور راقم (ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر) پاکستان حکومت کے اعلیٰ ترین اعزازات صدارتی تمغہ حسن کارکردگی یافتہ ہیں۔ روحانی میدان میں دو خانقاہیں، گیلانی، سادات بنہ مولہ اور تریڈا سائیں مٹھا سرکار معروف خانقاہیں ہیں۔ یہاں کے ٹیلنٹ اب افواج پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات بجا لا رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں