ہر کوئی اپنا جھتا بنا لے گا تو ریاست نہیں رہے گی،وزراء کرام

0

مظفرآباد(پی آئی ڈی)آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر کیو زراء پیر محمد مظہر سعید شاہ، فیصل ممتاز راٹھور اور دیوان علی خان چغتائی نے کہا ہے کہ موجودہ نظام لازوال قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا۔ ہماری نیت صاف ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ تمام معاملات کو حل کرنے کو تیار ہیں لیکن ریاست کو کمپرومائز نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی دوسرا نظام یہاں قائم ہوسکتا ہے۔ریاست ماں ہوتی ہے، ماں کے احترام اور تقدس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اگر ہر ایک اپنا جھتا بنا لے گا تو ریاست نہیں رہے گی۔ اخلاقی قدروں کو پامال نہیں ہونے دینا۔ خداراایسے راستے پر نہ چلیں جس کی منزل بھیانک ہو۔ بڑے مقاصد کے لیے چھوٹی باتوں کو وجہ نہیں بنایا جاتا۔ یہ غیر سنجیدہ طرز عمل ہے۔ لانگ مارچ اور تھریٹ دینے کا راستہ کیوں اختیار کیاجارہاہے؟ریاست کا کام مسائل سننا اور حل کرنا ہے، جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے آج دوبجے مذاکراتی سیشن تھا،اچھے ماحول میں بات چیت جاری تھی، لیکن اچانک جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے مذاکراتی سیشن منسوخ کر دیا گیا۔ ایک طرف شعور کی بات کی جارہی ہے اور دوسری جانب 1947 میں واپس جانے کی۔ مہاراجہ کے خلاف اور اس کے بعد کشمیریوں کی قربانیوں کی طویل داستان ہے جس کے بعد یہ نظام معرض وجود میں آیا۔ مہاراجہ کے دور میں ہر چیز پر ٹیکس لیاجاتا تھا۔ موجودہ نظام کے قیام میں قربانیاں شامل ہیں، سب کی اپنی اپنی سوچ ہوسکتی ہے، ہمارا پاکستان کے ساتھ”کلمہ طیبہ“ کی بنیاد پر رشتہ ہے۔ نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر کے ہم ایک دوسرے کو گہری کھائی کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روزپی آئی ڈی کمپلیکس میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری اطلاعات و جنگلات انصر یعقوب خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر اطلاعات پیر محمد مظہر سعید شاہ نے کہاکہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں بہت سے معاملات حل ہو چکے جو باقی ہیں وہ بھی مذاکرات سے ہی حل ہوں گے۔ 1947 میں آزادکشمیر میں صرف 290 سکول اور ایک انٹرمیڈیٹ کالج تھا۔ آج چار ہزار سے زائد سکولوں، پانچ یونیورسٹیاں اور لٹریسی ریٹ چاروں صوبوں سے زیادہ ہے۔1947 میں ریاست میں صحت کے شعبے میں صرف 30 بیڈ تھے جو کہ آج اللہ کے فضل سے 3 ہزار سے زیادہ ہیں۔ریاست کو مزید ترقی کی طرف جانے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ ریاست کے فیصلے آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ قطر اور برونائی کی آبادی اور رقبہ آزادکشمیر سے کم ہے تو کیاوہاں بھی نظام کمشنر کے حوالے کر دیاجائے؟۔ ہر ریاست اپنا نظام ہوتا ہے، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے دوست اپنی معلومات اور شعور کو بہتر کریں۔ ترقی کرنا حق ہے لیکن حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ لازوال قربانیوں کے بعد معروض وجود میں آئے نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں؟عوامی مطالبہ تھا کہ آٹا اور بجلی پر سبسڈی دی جائے، وزیراعظم آزادکشمیر نے وفاقی حکومت سے معاملہ اٹھایا، وفاق نے شدید معاشی مشکلات کے باوجود پیٹ کاٹ کر آزادکشمیر کے شہریوں کو خطے میں سب سے سستی بجلی اور آٹادیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں