امریکی انتخابات ”منگل“ کو ہی کیوں ہوتے ہیں۔۔۔عابد صدیق

0

امریکہ میں ہونے والے صڈارتی انتخابات میں ری پبلکن صدارتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے لیے درکار الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔جس وقت یہ مضمون تحریر کیا جا رہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو 277 الیکٹورل ووٹ مل چکے ہیں جب کہ صدر بننے کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ ڈیمو کریٹک صدارتی اُمیدوار کاملا ہیرس اب تک 224 ووٹ حاصل کر سکی ہیں۔صدارتی انتخاب کے لیے اہم سمجھے جانے والی سوئنگ ریاست وسکونسن میں کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے 270 کا ہندسہ عبور کیا۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور جارجیا سے بھی جیت گئے تھے۔
امریکہ میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں لیکن الیکشن کا دن ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے جو نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والا منگل ہے۔ لیکن الیکشن کے لیے اسی دن کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کا تعلق امریکی سیاسی تاریخ اور امریکیوں کے روزمرہ کے معمولات سے ہے۔امریکہ کی آزادی کے بعد 1788 میں ہونے والے پہلے صدارتی الیکشن کے بعد 1800 کی ابتدائی دہائیوں تک ریاستیں 34 دن کے دورانیے میں کسی بھی دن الیکشن کرا سکتی تھیں اور اس کے لیے کوئی ایک دن مقرر نہیں تھا۔اس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے تھے۔ پالیسی سازوں کو جلد اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ 34 دن کے دورانیے میں جن ریاستوں میں پہلے ووٹنگ ہو جائے گی اس کے نتائج دیگر ریاستوں کی رائے عامہ کو بھی متاثر کریں گے۔اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ پورے امریکہ میں صدارتی الیکشن کے لیے ایک دن اور تاریخ متعین کر دیے جائیں۔کانگریس نے 1845 میں قانونی سازی کر کے نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو انتخاب کا دن مقرر کردیا۔ لیکن الیکشن کے لیے اس دن اور مہینے کا تعین بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا اور ووٹرز کی زیادہ سے زیادہ سہولت کو پیشِ نظر رکھا گیا۔انیسویں صدی تک امریکہ میں شامل ریاستوں کی زیادہ تر آبادی زراعت سے وابستہ تھی۔ ان لوگوں کے معمولات بہت سخت تھے جس میں فصلوں کی کاشت، ان کی کٹائی، صفائی اور منڈیوں میں فروخت جیسے مراحل سے گزرنا ہوتا تھا۔عام طور پر کاشت کار بدھ کو اپنی اجناس اور پیداوار منڈیوں میں فروخت کرنے جاتے تھے۔ اس لیے ووٹنگ کے لیے بدھ کا دن مقرر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اتوار کو چھٹی تو ہوتی تھی لیکن اس دن الیکشن رکھنے میں یہ قباحت تھی کہ زیادہ تر آبادی چرچ جاتی تھی۔ پھر بہت سے ووٹر پولنگ اسٹیشنز سے بہت دور رہتے تھے۔اس لیے دو مصروف دنوں کے درمیان کانگریس ووٹرز کو پولنگ بوتھ تک آنے کے لیے طویل مسافت طے کرنے کا بھی مناسب وقت دینا چاہتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ منگل کو مناسب ترین دن سمجھا گیا کیوں کہ اس طرح چرچ میں عبادت کے بعد پولنگ اسٹیشن پہنچنے کے لیے بھی مناسب وقت مل گیا اور بدھ کا اہم کاروباری دن بھی متاثر نہیں ہو رہا تھا۔
الیکشن کے لیے مہینے کا انتخاب کرتے ہوئے بھی کاشت کاروں کی مصروفیات مدِ نظر رکھی گئیں۔ موسمِ بہار اور گرما میں فصل کی بوائی کا موسم ہوتا ہے جب کہ گرمی کے اختتام اور خزاں کے ابتدائی دنوں میں فصلوں کی کٹائی اور پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔اس لیے نومبر کو سب سے مناسب مہینہ سمجھا گیا کیوں کہ فصلوں کی کٹائی کا کام مکمل ہو جاتا ہے اور سردی میں شدت بھی پیدا نہیں ہوتی۔دنیا میں آج کئی ممالک اتوار کو الیکشن منعقد کراتے ہیں لیکن امریکہ میں اب بھی منگل ہی کو الیکشن ڈے ہوتا ہے۔بعض لوگ الیکشن ڈے کے دن میں تبدیلی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے بقول امریکہ کی زیادہ تر ورکنگ کلاس اب پیر سے جمعے تک کام کرتی ہے اس لیے الیکشن ڈے پر ووٹنگ آسان بنانے کے لیے اسے چھٹی کے دن ہونا چاہیے۔ اسی طرح الیکشن ڈے کو عام تعطیل قرار دینے کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔آج امریکہ میں زراعت سے وابستہ خاندان آبادی کا صرف دو فی صد ہیں لیکن نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو الیکشن ڈے کی روایت آج بھی برقرار ہے۔
وزیر اعظم پاکستان سمیت دنیا بھر کے سربران نے نئے امریکی صدر کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار جب صدر منتخب ہوئے تھے تو خاصے متنازعہ رہے ہیں اور انہوں نے مسلمان ممالک کے حوالے مشکل فیصلے کیے اور بعض ممالک کے شہریوں پر امریکہ کے لیے سفری پابندیاں بھی عائد کیں۔انہوں نے گذشتہ انتخابات میں اپنی شکست کے بعد ہار تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا اور سخت احتجاج کیا جس کے بعد انہیں مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
عالمی میڈیا کے جائزے بتاتے ہیں کہ کہ ان کو وراثت میں دو جنگیں مل رہی ہیں اور یہ وہ تنازعات ہیں جو ان کے پچھلے دورِ حکمرانی میں موجود نہیں تھے: روس کا یوکرین پر حملہ اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جنگ۔اس کے بعد پھر شمالی کوریا ہے جو کہ اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل کے پروگرام کو وسیع کر رہا ہے اور دوسری جانب یہ امکانات بھی ہیں کہ امریکی اتحادی تائیوان کو چین کی جانب سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں ان مسائل سے کس طرح نمٹتے ہیں وہ بھی احتیاط برتے بغیر اور ان تجربہ کار فوجی جرنیلوں کی غیرموجودگی میں جو پچھلے دورِ حکومت میں ٹرمپ کے ساتھ تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں