انسان کو اللہ تعالٰی نے اشرف المخلوقات بنایا۔وہ صرف اور صرف علم کی وجہ سے اور آدم کو بھی فرشتوں پر فضیلت علم کی وجہ سے ملی۔آج کے کالم میں میں علمی موضوع تحریر کروں گی۔اور وہ علمی پہلو جس پر گفتگو ہو گی ۔وہ ہے ادب جس کو انگلش میں لٹریچر کہتے ہیں۔اور پھر اس لٹریچر میں نثر اور پھر نثر کا ایک اہم جزو آپ بیتی ہے۔جو راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بیوروکریٹ ریٹائرڈ سیکرٹری حکومت آزاد کشمیرنے تحریر کی ہے ۔اس آپ بیتی کی تقریب رونمائی کی تقریب میں مجھے جانے کا موقع ملا اور علمی وادبی شخصیات کو سننے کا موقع ملا۔۔تقریب کا احوال کچھ یوں ہے کہ جموں و کشمیر آرٹس کونسل راولاکوٹ کے زیر اہتمام سردار محمد صدیق خان( سابق سیکرٹری آزاد ریاست جموں وکشمیر) کی کتاب ( سوانح حیات)سر بازار می رقصم کی تقریب رونمائی کی گئ ۔اس موقع پر علمی وادبی شخصییات ۔سرادار محمد صدیق خان کے دوستوں۔بیوروکریسی ، میڈیا اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خطاب کیا۔اور مصنف کو خراج عقیدت پیش کیا۔اس موقع پر مقررین نے کہا کہ بیوروکریسی میں اتنی اعلیٰ ظرف شخصیت ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی۔پھر سماجی خدمات اور تعلیم میں موصوف کا جو کردار ہے ۔اس سے راولاکوٹ کے لوگ بخوبی آگاہ ہیں ۔تقریب میں علمی وادبی شخصیات کی شرکت اور سردار محمد صدیق خان سے لوگوں کی عقیدت اور محبت نے پروگرام کو چار چاند لگا دیئے ۔تقریب سے سردار محمد صدیق خان، رجسٹرار جامعہ پونچھ ڈاکٹر عبدالرؤف خان ،پروفیسر ڈاکٹر محمد صغیر خان ،عابد صدیق چیف ایڈیٹر روز نامہ کشمیر دھرتی، پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر فیاض نقی ،ڈاکٹر شاہد خان ،سابق بیوروکریٹ سیدظہیر گردیزی ،پروفیسر عائشہ یوسف، سردار شاذیب شبیر ،عرفان حمید ودیگر نے خطاب کیا ۔مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سردار محمد صدیق خان بچپن سے ہی لائق انسان تھی۔اس موقع پر باغ سے آئے ہوئے ڈی جی لوکل گورنمنٹ سید ظہیر گردیزی نے موصوف سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موصوف کی پرکشش شخصیت تھی ۔جو آج مجھے کھینچ کر ادھر لائی۔بطور ایڈمنسٹریٹر اور بیوروکریٹ موصوف نے وہ خدمات سر انجام دیں ۔جو صدیوں تک یاد رکھی جائے گی۔اور آج مجھے ان کی یاد مصروفیت کے باوجود ادھر کھینچ کر لائی۔
ایسی ہی شخصیت کے حوالے سے علامہ اقبال نے کہا تھا۔۔۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔۔۔۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔۔۔علامہ محمد اقبال ۔۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔۔۔
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔۔۔علامہ محمد اقبال۔۔۔۔۔
مصنف کی آب بیتی میں فارسی کی چھاپ ہے۔مصنف فارسی زبان سے بھی لگاو رکھتے ہیں۔اس موقع پر مقررین نے کہا کہ سردار صدیق خان نے بڑے عمدہ طریقے سے یہ آب بیتی لکھی ہے۔اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آزاد کشمیر میں چوہدری غلام عباس ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان،پروفیسر یعقوب شائق ودیگر بہت سے نام ہیں جنہوں نے آپ بیتی لکھی۔اس میں ایک اضافہ موصوف کی اس آب بیتی ہے۔مقررین نے کہا کہ کتاب میں اتنی دلچسپی ہے کہ ہم نے 400سے زائد صفحات پڑھ لئے۔اور کوئی اکتاہٹ بھی نہیں ہوئی۔۔
مقررین نے موصوف کی تعلیم اور ملازمت کے کیئرر کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سے موصوف نے بی ۔کام اور معاشیات میں ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت شروع کی ۔اور موصوف راولاکوٹ کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے تھے ۔۔۔
شاعر نے اس صورت حال کو یوں بیان کیا ہے ۔۔
فطرت کے مقاصد کي کرتا ہے نگہباني۔۔۔۔
يا بندہ صحرائي يا مردکہستاني۔۔۔۔۔۔
دنيا ميں محاسب ہے تہذيب فسوں گر کا۔۔۔۔
ہے اس کي فقيري ميں سرمايہ سلطاني۔۔۔
يہ حسن و لطافت کيوں ؟ وہ قوت و شوکت کيوں۔۔۔
بلبل چمنستاني ، شہباز بياباني!۔
اے شيخ ! بہت اچھي مکتب کي فضا ، ليکن۔۔۔
بنتي ہے بياباں ميں فاروقي و سلماني۔۔۔۔
صديوں ميں کہيں پيدا ہوتا ہے حريف اس کا۔۔۔۔
تلوار ہے تيزي ميں صہبائے مسلماني۔۔۔۔
سردار محمد صدیق خان مختلف محکموں میں رہے۔پھر ڈی جی لوکل گورنمنٹ ،سیکرٹری کے عہدے پر ریٹائرمنٹ لی۔اس کے بطور سردار حاجی یعقوب کی حکومت میں بطورِ معاون خصوصی خدمات سرا نجام دی۔اور سماجی اور تعلیمی سیکٹر پر خدمات سر انجام دیتے رہے ۔سدھن ایجوکیشن سوسائٹی کے ساتھ منسلک رہے۔اور اس کیلئے بہت کام کیا۔
مقررین نے کہا کہ مصنف نے آببیتی لکھتے ہوئے اس کے اصولوں کا خاص خیال رکھا ۔تو دوسری طرف فارسی آمیزش نے اس کو شیرین اور مزید پرکشش بنادیا ۔اور پڑھنے والا اکتاہٹ کے بغیر پڑھتا جاتا ہے۔۔
آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو لوگوں کا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے جو رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔سردار محمد صدیق خان نے اس رشتہ کو بحال کیا ہے۔جو اس خطہ پر ان احسان عظیم ہے۔ہم اس موقع پر ان کے ساتھ اس کار خیر میں تعاون کرنے والے تمام اخباب کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اور خصوصاً اس کتاب کے پیلبشر “دھرتی پبلی کیشن راولاکوٹ”کا جنہوں نے اس کتاب کو پبلش کیا۔اور اس موقع پر ہم اگر ان کی فیملی بچوں اور بچیوں کا کو بھی خوش قسمت اولاد سمجھتے ہیں ۔جن کے والد مصنف کتاب نے اس خطہ کیلئے ایک عملی سرمایہ مہیا کیا ہے۔راولاکوٹ کی دھرتی بہت زرخیز دھرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس دھرتی کی علمی زرخیزی کو قائم دائم رکھے ۔امین !
اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ جو انہوں نے خلوص کے ساتھ کوششیں کی ہیں۔انہیں اپنے بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین!