کوٹلی شہر پر غم کی ایسی گھٹا چھا گئی ہے جو مدتوں چھٹنے کا نام نہیں لے گی۔ ممتاز آرتھوپیڈک سرجن، ہمدرد طبیب اور باوقار شخصیت ڈاکٹر ساجد منظور جو ہمارے قریبی رشتہ دار سردار حبیب خان ایڈووکیٹ مرحوم کے بیٹے ڈاکٹر شاہد حبیب کے کلاس فیلو بھی تھے ایک افسوسناک حادثے میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کی اچانک اور ناگہانی موت نے نہ صرف ان کے اہلِ خانہ، دوستوں اور ساتھیوں کو صدمے میں مبتلا کر دیا، بلکہ پورا شہر سوگوار ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر ساجد منظور اپنے شعبے میں ایک روشن ستارے کی مانند تھے۔ انہوں نے آرتھوپیڈک سرجری کے میدان میں نہ صرف مہارت حاصل کی بلکہ اپنی خوش اخلاقی، اخلاص اور مریضوں کے ساتھ نرم برتاؤ کی بدولت ایک خاص مقام پایا۔ وہ صرف ہڈیوں کے معالج نہیں تھے بلکہ کئی دلوں کی دھڑکن بھی تھے۔ لوگ انہیں طبی مہارت کے ساتھ ساتھ انسانیت سے بھرپور دل کے مالک کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
کوٹلی جیسے شہر میں جہاں ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے، وہاں ڈاکٹر ساجد منظور جیسے باصلاحیت، فرض شناس اور درد مند انسان کا چلے جانا کسی المیے سے کم نہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ خدمات، سماجی وابستگی اور اخلاقی کردار ایک مثالی ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں۔
راولاکوٹ میں جونہی کسی انسان کی ہڈی ٹوٹتی، کوئی حادثہ پیش آتا، یا کوئی بزرگ سیڑھیوں سے پھسل کر زمین پر گرتا—گھبراہٹ کے عالم میں لوگ ایک دوسرے سے بس یہی پوچھتے: “کوٹلی لے جائیں؟ وہاں ڈاکٹر ساجد منظور صاحب ہیں نا؟”
یہ جملہ محض ایک مشورہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ امید کی کرن ہوتا تھا۔ درد میں مبتلا مریض اور اس کے لواحقین کو جیسے ہی ڈاکٹر ساجد منظور کا نام سنائی دیتا، چہرے پر ایک عجیب سا سکون آ جاتا۔ انہیں معلوم ہوتا کہ اب وہ ایک ایسے مسیحا کے پاس جا رہے ہیں جو صرف جسم کی ہڈیاں جوڑنے کا فن نہیں جانتا، بلکہ دلوں کا درد بھی سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد منظور کا نام اعتماد، مہارت، دیانت اور خدمت کا استعارہ بن چکا تھا۔ راولاکوٹ، باغ، ہجیرہ، حتیٰ کہ دور دراز کے پہاڑی علاقوں سے لوگ کوٹلی کا رخ اسی لیے کرتے تھے کہ وہاں ساجد منظور ہیں۔ ان کی تشخیص بے مثال، علاج مؤثر، اور رویہ مثالی ہوتا۔ مریض صرف تندرست ہو کر نہیں لوٹتے تھے، بلکہ ان کے دل میں اس انسان کے لیے دعا ہوتی جس نے انہیں بے بسی سے نجات دی۔
آج وہ ہنر مند ہاتھ خاموش ہو گئے۔ وہ تسلی بخش آواز اب سنائی نہیں دے گی۔ وہ مسکراہٹ، جو ہر مریض کا اعتماد بحال کرتی تھی، اب صرف یادوں میں رہ گئی ہے۔ لیکن ان کا ذکر، ان کا انداز، اور ان کی مہارت راولاکوٹ سے کوٹلی تک کے ہر گھر میں ایک روایت بن چکی ہے۔
وہ صرف مریض نہیں دیکھتے تھے، انسان دیکھتے تھے۔ جب کوئی درد سے کراہتا ہوا ان کے سامنے آتا تو ڈاکٹر ساجد منظور صرف زخم نہیں دیکھتے تھے، آنکھوں میں جھانک کر دل کی کیفیت سمجھ لیتے تھے۔ اور پھر نرمی سے پوچھتے: “کیا کرتے ہو بھائی؟ کہاں سے آئے ہو؟” یہ سوال بظاہر معمولی لگتا، لیکن اس میں ایک گہرا احساس چھپا ہوتا—احساسِ ہمدردی، احساسِ انسانیت۔
انہیں زیادہ بات کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، مریض کے چہرے، لہجے اور لباس سے وہ فوراً سمجھ جاتے کہ کون کتنی مالی سکت رکھتا ہے۔ اور جب انہیں یقین ہو جاتا کہ سامنے والا مجبور، غریب یا لاچار ہے تو ان کی شخصیت کا دوسرا روپ سامنے آتا—شفقت اور فیاضی کا پیکر۔
ایسے مریضوں کا وہ نہ صرف دل سے علاج کرتے بلکہ دلجوئی بھی کرتے۔ کبھی دوا اپنی جیب سے دلواتے، کبھی فیس معاف کر دیتے، اور کبھی ایک حوصلہ افزا مسکراہٹ سے مریض کے سارے درد کو زائل کر دیتے۔ ان کے کلینک سے مریض صرف صحت یاب ہو کر نہیں نکلتے تھے بلکہ دعاؤں اور محبتوں سے مالا مال ہو کر لوٹتے تھے۔
ڈاکٹر ساجد منظور کی یہی انسان دوستی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اصل علاج صرف دوا سے نہیں ہوتا، بلکہ مسکراہٹ، عزت، خلوص اور دل سے ہوتا ہے۔ ان کا ہر مریض انہیں صرف ڈاکٹر نہیں، بلکہ “رحمت کا فرشتہ” سمجھتا تھا۔
آج وہ ہم میں نہیں رہے، لیکن ان کی نرم آواز، ہمدرد لہجہ اور انسانیت سے لبریز رویہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گا۔ ان کا نام جب بھی آئے گا، دعاؤں کی خوشبو ساتھ لائے گا۔
ڈاکٹر ساجد منظور کی ناگہانی موت صرف کوٹلی کا غم نہیں، یہ پورے آزادکشمیر کا دکھ بن چکی ہے۔ ان کی میت جب کوٹلی پہنچی، تو ایسا محسوس ہوا جیسے شہر نے سانس لینا چھوڑ دیا ہو۔ سڑکیں خاموش تھیں، فضا اشکبار، اور ہر آنکھ پرنم تھی۔ لیکن یہ منظر صرف کوٹلی تک محدود نہیں رہا—پورے آزادکشمیر کے لوگ غم میں ڈوب گئے۔
جنازہ گاہ میں جگہ کم پڑ گئی، لیکن جذبوں کا سمندر امڈ آیا۔ میرپور، راولاکوٹ، باغ، ہٹیاں، مظفرآباد، حتیٰ کہ پہاڑوں کے پیچھے سے بھی لوگ اشکبار آنکھوں کے ساتھ پہنچے کہ اس مسیحا کو آخری سلام پیش کریں، جس نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔اور جو نہ پہنچ سکے، وہ دل سے شریک رہے۔ گھروں میں، مساجد میں، اسپتالوں کی راہداریوں میں، ہر طرف ایک ہی دعا گونج رہی تھی: اللہ ڈاکٹر ساجد منظور کو اپنی رحمتوں میں جگہ دے۔ان کی حادثاتی موت نے وقت کو ایک لمحے کے لیے روک دیا۔ ہر طرف افسردگی چھا گئی، جیسے آسمان بھی رو رہا ہو اور ہوائیں ماتم کر رہی ہوں۔ ان کے جانے سے صرف ایک کرسی خالی نہیں ہوئی، ایک احساس رخصت ہوا ہے، ایک سایہ چھن گیا ہے، ایک تسلی بخش مسکراہٹ دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگ مر کر بھی نہیں مرتے۔ ان کا اخلاق، ان کی خدمات، اور ان کی محبتیں لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ ڈاکٹر ساجد منظور صاحب انہی زندہ جاوید لوگوں میں سے ایک تھے۔وہ چلے گئے، لیکن ان کا نام، ان کی دعائیں، اور ان کی مسیحائی ہر دعا میں شامل ہے۔ آزادکشمیر کی فضا اس روز واقعی سوگوار تھی، اور شاید دیر تک رہے گی… کیونکہ ایسے لوگ بار بار نہیں آتے
بے شک ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور جو لوگ دنیا میں خیر، محبت اور خدمت کے نشان چھوڑ جاتے ہیں، ان کی جدائی محض جسمانی ہوتی ہے، روحانی رشتہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ ڈاکٹر ساجد منظور صاحب ایک ایسے ہی عظیم انسان تھے جنہوں نے اپنے علم، مہارت اور ہمدردی سے نہ جانے کتنے ٹوٹے وجود جوڑے اور دلوں کو سکون بخشا۔ ان کی حادثاتی وفات ہمارے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم دعا گو ہیں کہ ربِ کریم انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، اور ان کے صدقۂ جاریہ کو ان کے حق میں ہمیشہ جاری و ساری رکھے۔ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب، ساتھیوں، مریضوں اور بے شمار چاہنے والوں کو اس عظیم صدمے پر صبرِ جمیل عطا فرمائے اور انہیں یہ حوصلہ دے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی نیکیوں، خدمات اور یادوں کو صدقِ دل سے زندہ رکھ سکیں۔ آمین یا رب العالمین