اشفاق احمد کا نام ادب کی دنیا میں ایسے ہی ہے جیسے کسی گاڑی کا ”ٹائی راڈ“ ہو۔ وہ اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر رہے۔ انہوں نے اٹلی اور فرانس کی جامعات سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومہ حاصل کیے، اور امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔وہ دیال سنگھ کالج، لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر ہے۔ بعد میں اٹلی کی روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو اور بعد ازاں دو سال ”ہفت روزہ لیل و نہار” کی ادارت بھی کی۔
اٹلی میں اپنے قیام کے دوران پیش آنے والے ایک واقعہ کو وہ یوں بیان کرتے ہیں۔”روم میں رہتے ہوئے ایک دفعہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر میری گاڑی کا چالان ہو گیا،میں مصروفیات کے باعث مقررہ تاریخ سے پہلے چالان کی فیس جمع نہ کروا سکا جس پر مجھے وہاں کی عدالت میں جانا پڑا۔جج کے سامنے پیش ہوا تو اس نے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ میں پروفیسر ہوں اور مصروف ایسا رہا کہ وقت ہی نہیں ملا،اس سے پہلے کہ میں بات پوری کرتا جج نے کہا ”عدالت میں ایک استاد موجود ہے“۔ پھر کیا ہوا کہ وہاں موجود سب لوگ کھڑے ہو گے،جج نے مجھ سے معافی مانگی اور چالان معاف کر دیا۔بس اس روز میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا“۔
ہمارے ہاں پروفیسرز بلکہ استاد کی حیثیت بتدریج کم ہوتی گئی،اس کی عزت میں بھی کمی آتی گئی اور معاشرے میں وہ مقام نہ رہا جو آج سے بیس یا تیس سال پہلے استاد کا تھا۔اگر نوے کی دہائی یا اس سے پہلے کے وقت کا مشاہدہ زیر تحریر لائیں تو استاد جس پبلک سروس گاڑی میں سفر کرتا تھا طالب علم اس گاڑی میں نہیں بیٹھتا تھا۔استاد محترم جس محفل میں بیٹھے ہوں وہاں عام طورپرشاگرد نہیں بیٹھتے تھے۔استاد کی کہی ہوئی بات پر یقین کیا جاتا تھا۔یہ تو عام استاد کا احترام تھا پروفیسرکا مقام اور رتبہ مزید بلند ہوتا تھا۔عام خیال یہ ہے کہ جب سے نجی تعلیمی ادارے وجود میں آئے اساتذہ کی عزت و احترام کی تنزلی بھی ساتھ ساتھ شروع ہو گئی۔عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ موجودہ نصاب پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے،نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعلیم،خاص کر انگریزی زبان پر تو توجہ دی گئی لیکن تربیت کا بہرحال فقدان رہا۔نمبروں کے چکر میں طلباء کو بڑے چھوٹے کی تمیز ختم کروا دی گئی اور استاد شاگرد کا تعلق بھی وہ نہ رہا جو نوے کی دہائی یا اس سے پہلے تھا۔ایک وقت آیا کہ لاری اڈوں پر استاد کو اگلی نشست سے محض اس لیے اٹھا کر پچھلی نشست پر بیٹھا یا جاتا ہے کہ اگلی نشست پر پولیس کے”انسپکٹر صاحب“ بیٹھیں گے جو گریڈ میں بہت کم درجہ رکھتے ہیں لیکن چونکہ معاشرے میں ان کا رعب زیادہ ہے۔
چند سال پہلے وویمن یونیورسٹی باغ کے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد حلیم خان سمیت چار پروفیسرز کو احتساب بیورو آزادکشمیر نے حراست میں لیا۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں کی ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے انہیں محض تین، تین لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت دے دی لیکن اس دوران اخبارات میں دلچسپ بیان بازی بھی دیکھنے کو ملی کہ ”وائس چانسلر پروفیسر یا استاد کے زمرے میں نہیں آتے”۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ انہوں نے تقریاں غلط کی ہیں یا صیحح لیکن یہ تحریر لکھنے کا مقصد محض یہ ہے کہ کیا دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا ممکن ہے کہ کسی تحقیق یا تفتیش کے وائس چانسلر یا پروفیسرز کو گرفتار کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہر کام ممکن ہے۔
عالمی یوم اساتذہ ہرسال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یوم اساتذہ منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے کردار کو اجاگرکرنا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھاس کی عزت و احترام کو بحال کرنے کے لیے شعوری طور پر قوم کو بیدار کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیں کئی سیمینارز، کانفرنسیں اورتقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
2009ء میں ”عالمی یوم اساتذہ“ کے حوالے سے یہ ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ 2015ئتک دنیابھر میں تعلیم کو عام اور مفت کیا جائے گا، اسا تذہ کی عزت نفس بحال کی جائے گی۔ مقررہ ہدف سے 09سال مزید گذرنے کے بعد بھی یہ ٹارگٹ پورا ہوا یا نہیں لیکن اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں پیشہ ور اساتذہ کو ان کا جائز مقام دیا جائے اور درسگاوں سے سیاسی اثر وسوخ ختم کیا جائے تا کہ معاشرہ ترقی کی جانب مائل ہو سکے۔نئے اساتذہ کی تقرریوں کے وقت محض مقابلے کا امتحان پاس کرنا یا تعلیمی کیریئر اچھا ہونا کافی نہ سمجھا جائے بلکہ تقرری سے پہلے ان کا سائیکالوجیکل ٹیسٹ بہت ضروری ہے کہ آیا ان امیدواروں میں جو معلم جیسے پیشے کو اپنانے جا رہے ہیں درس و تدریس کا رحجان پایا جاتا ہے، اور کیا وہ اس پیشے کو پسند بھی کرتے ہیں یا پھر خاندان کے”پریشر“ کی وجہ سے انہوں نے اس فیلڈ کا انتخاب کیا۔ تقرری کے بعد ادارے میں بھیجنے سے پہلے اساتذہ کی چند ماہ کی تربیت اشد ضروری ہے تا کہ موجودہ دور کے تدریسی تقاضوں کو وہ سمجھ سکیں اور اپنے آپ کو بہترین معلم ثابت کر سکیں۔یہی ایک طریقہ ہے جسے اپنانے سے معلم کا مقام بھی بلند ہو گا اور طلبہ بھی علم کے زیور سے آراہستہ ہوں گے۔اساتذہ کی عزت نفس بحال ہو گی تو اس کا اعتماد بھی بڑھے گا اور وہ ایک اچھا معلم ثابت ہو سکے گا۔اگر اس طرح کی اصلاحات نہ کی گئیں اور سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا گیا تو پھر اس طرح کے دن منانے کا مقصد بھی پورا نہ ہو گا۔
”استاد کا عالمی دن ” مشاہداتی تجزیہ ۔۔۔۔ عابد صدیق
0