یوم یکجہتی کشمیر اور اعلانِ جہاد ….اکرم سہیل

0

پاکستان کے عوام ہر سال 5 فروری کو ریاست جموں کشمیر کے عوام کی آزادی کے حق کیلئے کشمیری عوام سے یومِ یکجہتی مناتے ہیں ۔ تاریخ بتا رہی ہے کہ برصغیر کے عوام کا کشمیریوں کے ساتھ صدیوں پرانا اتحاد اور ہم آہنگی کا رشتہ چلا آ رہا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر پر صدیوں سے غیر ملکی طاقتوں کا غاصبانہ قبضہ رہا ہے لیکن کشمیری عوام نے کبھی اس قبضہ کو تسلیم نہ کیا اور ہمیشہ اس کے خلاف اپنی جان و مال کے ساتھ مزاحمت کی ۔ معائدہ امرتسر کے ذریعہ 1846ء میں ریاست جموں کو ڈوگروں کے ہاتھ بیچا گیا تو اسی زمانے میں پونچھ میں اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف بغاوت ہو چکی تھی جس کی سزا کے طور پر منگ کے مقام پر زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچی گئیں۔
بر صغیر کے عوام ہمیشہ کشمیریوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے۔ 1902 میں ڈھاکہ میں نواب سر سلیم اللہ کی قیادت میں “آل انڈیا کشمیری مسلم کانفرنس” کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس تنظیم نے پہلی بار ریاست میں ہونے والے ظلم کے خلاف برصغیر میں آواز اٹھائی۔ 13 جولائی 1931ء کو سرینگر میں جب ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں 22 مسلمان شہید ہوئے تو اس سانحہ کے ردٍ عمل میں 1931ء میں لاہور میں علامہ اقبال کی قیادت میں “کشمیر کمیٹی” کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیٹی کی اپیل پر 14 اگست 1931ء کو پورے برصغیر میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے “یومِ کشمیر” منایا گیا۔ پھر ستمبر 1931ء میں مجلسِ احرار کی طرف سے جموں کے علاقہ کی طرف لانگ مارچ کیا گیا اور اس تحریک کا نام ” کشمیر چلو تحریک” رکھا گیا۔ جب یہ مارچ جموں کی بارڈر پر پہنچا تو تو وہاں اسے روک دیا گیا اور سینکڑوں احراری گرفتار ہوئے۔ پھر 1975ء میں جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندی اور شیخ عبداللہ کا معائدہ ہوا تو پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر پورے پاکستان میں اس گٹھ جوڑ کے خلاف ہڑتال کی گئی۔ اور پاکستان کے ایک آمر کے ہاتھوں جب ذوالفقار علی بھٹو کا قتل ہوا تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس قتل کے خلاف تاریخی ہڑتال کی گئی۔ اب 5فروری کی ہڑتال 1990ء میں قاضی حسین احمد کی تجویز پر شروع ہوئی لیکن اس وقت کی وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسے سرکاری طور پر پورے پاکستان میں کشمیریں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے سیاستدان اور سابق وزیر مشاہد حسین سید کے بقول پاکستان کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ کے میں ریاست کی آزادی کے متعدد پرامن مواقع کھوئے گۓ۔ لیکن پاکستان کے عوام کی کشمیری عوام کے ساتھ لازوال محبت صدیوں پر محیط ہے اور اس میں کبھی کمی نہیں آئی ۔جب بھی ریاست جموں کشمیر میں وہاں کے حکمرانوں کی جانب سے ظلم کا بازار گرم ہوا جموں و کشمیر کے عوام کی پناہ گاہ پاکستان کے موجودہ سرحدی علاقے ہی بنے۔ اور یہاں پر ریاستی عوام برابر کے شہریوں کے طور پر رہ رہے ہیں۔ کشمیر پالیسیوں کے حوالہ سے پاکستان کے حکمران طبقات پر تنقید کا مکمل جواز موجود ہے۔ کہ ان کی پالیسیاں زمانے کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ ان مقتدر استحصالی طبقات نے جہاں پاکستانی عوام کے جمہوری اور معاشی حقوق بھی غصب کر کے رکھے ۔وہاں کشمیری عوام کو بھی مالِ غنیمت کے طور حسبِ ضرورت استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستانی عوام اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ازلی اور ابدی رشتے کبھی بھی کمزور نہیں ہوئے ۔ استحصالی طبقات چاہتے رہے کہ کشمیری اور پاکستانی عوام میں دراڑیں پیدا ہوں کہ اس طرح عوامی توجہ ان کے لوٹ مار کے استحصالی نظام کی طرف نہ چلی جائے اور یہ لوگ متحد ہو کر اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہو جائیں۔۔
یاد رہے کہ ملک کے اندر علاقائی جھگڑے ہمیشہ استحصالی طبقات کے حق میں جاتے ہیں۔اور اس استحصالی نظام کی نہ صرف بقاء کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اپنے حقوق مانگنے والوں کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دیکر ان کی آوازبھی بند کر دی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر میں حالیہ عوامی حقوق کی تحریک بھی اس لئے کامیاب ہوئی کہ اس تحریک کو پاکستان دشمنی کا لیبل لگوانے سے مکمل طور پر محفوظ رکھا گیا۔ اور اسے پاکستان مخالف نہیں بلکہ پاکستان کے ڈکیت طبقات جو بجلی کے بلات کے نام پر آزاد کشمیر اور پاکستان میں ڈکیتی کر رہے تھی اس سے آزاد کشمیر کے عوام کو نجات دلا دی۔
کشمیری شاعر غلام احمد مہجور نے کہا تھا کہ ایک دن آئی گا کہ کشمیر اہلِ مشرق کو بیدار کرے گا۔ اور یہ کشمیریوں کی حالیہ بیداری کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں نجی بجلی گھروں کے وہ عوام دشمن معائدے منسوخ ہو رہے ہیں۔ لہذا جہاں آج پاکستانی عوام کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجتی منا رہے ہیں وہاں کشمیری عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے چنگل سے چھڑانے کیلۓ پاکستان کے مزدورں کسانوں ہاریوں مززارعین اور جبری مشقت میں قید لاکھوں بچوں کی آزادی کیلئے بھی ایک دن آزاد کشمیر میں یومِ یکجہتئ پاکستان منائیں۔اور اس کیلئے آزاد کشمیر جائینٹ ایکشن کمیٹی قائدانہ رول ادا کرے.
کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے حوالے سے جہاد کے مقدس نام پر آزاد کشمیر میں پھر سرگرمیاں شروع کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں. کیا پاکستان کو دنیا میں دہشت گردثابت کر کے اسے تنہا کرنے کا کوئی خفیہ پروگرام ہے؟۔ جہاد قرآنی حکم ہے لیکن اس پر عمل کیلۓ قرآن پاک میں اللہ پاک کی دی گئی ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوگا کہ اہل ایمان وہ ہیں جو میری آیات (ہدایات) پر سوچے سمجھے بغیر جانوروں کی طرح ٹوٹ نہیں پڑتے بلکہ ان پر عمل کیلۓ(زمانہ کے تقاضوں کے مطابق) عقل و شعور استعمال کرتے ہیں۔ پھر نبئ پاکﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے لوگ اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق بہترین فیصلے کریں گے۔۔اگر ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آزادئ کشمیر کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اور خاص طور پر مسلح جدوجہد کا اس کے نتائج کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو لاکھوں کشمیری شہید کروانے کے باوجود کچھ نہ ملا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلے قرآنی احکامات کی روشنی میں عقل وشعور استعمال کر کے نہیں کئے گئے بلکہ ہوا کے گھوڑوں پر سوار ہوکر کئے گئے ورنہ نتائج کشمیری عوام کے حق میں ضرور نکلتے ۔ لاکھوں کشمیری شہید ہوۓ لیکن ایک انچ زمین آزاد نہ ہوئی بلکہ کشمیر کا سپیشل سٹیٹس بھی ختم ہو کر بھارت کا حصہ بن گیا۔اور ھم کچھ نہ کر سکے ۔ 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات واشنگٹن میں وزرائےاعظم پاکستان و بھارت کی ٹرمپ ملاقات کا نتیجہ تھا۔جس ملاقات کے بعد پاکستان کا وزیراعظم کہتا تھا کہ وہ ورلڈ کپ جیت کر لایا ہے ۔ اور پھر ادھر سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ مسلہء کشمیر پچیس سال کیلۓ فریز کر دیا گیاہے .اس وقت جمعہ کے روز نصف گھنٹہ دھوپ میں کھڑا رہنے کافیصلہ تو ہوا لیکن جہاد کا اعلان کیوں نہ ہوا۔؟ اب پچیس سال کی معیاد سے پہلے ہی ایک بار پھر جنگ کی بھٹی گرم کرنے کی کیا ایمرجنسی ہو گئی ہے ۔لہذا اب وہ سہولتکار جو ہمیشہ ایسے پراجیکٹس میں پرائیویٹ بھرتی کیلۓ فرنچائز لیتے ہیں انہوں نے اس کام کیلئے اپنی مارکیٹنگ بھی شروع کردی ہے۔جن جماعت کے سربراہ نے پرائیویٹ جہاد کو اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی قراردیا اسی کی جماعت نے پرائیویٹ جہاد پر کشمیر سمیت بین الاقوامی کاروبار کیا۔اب ان سے گذارش ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگوا کر اسے کسی اور سازش کا شکار نہ کرو۔ اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد کے ایسی کاروائیوں سے بھارتی فوج پر ایک بم پھینک کر بھارتی فوج کو جواز مہیا نہ کرو کہ وہ کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نہ صرف سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کریں بلکہ خواتین کی بے حرمتی بھی کریں۔ لہذا مناسب ہے کہ آپ اب غریبوں کے بچوں کو کسی نئی جنگ کا ایندھن بنا کر دولت جمع کرنے کی بجائے کوئی اور کاروبار کرو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں