عبد ا لصبور شیدائی۔۔ ایک حاضر و ناظر آدمی..پروفیسر ڈاکٹر ممتاز صادق خان

0

پروفیسر عبدا لصبور شدائی ہمارے زندہ دل و جواں ہمت دوست ہیں۔ وہ ہر جگہ، ہر حال میں حاضر وناضر رہنے والے انسان ہیں۔وہ ساری زندگی نئے نئے تجربات کرنے کے عادی رہے ہیں۔کبھی شاعری،کبھی سیاست،کبھی مضمون نویسی،کبھی کالم نگاری اور کبھی خطابت کے تجربات کے بعد اب انھوں نے تصنیف و تالیف کی دنیا میں قدم رکھا ہے۔گزشتہ دنوں ”سوچ کی لہریں“کے عنوان سے اس سال چھپنے والی اُن کی دوسری تصنیف منظرِ عام پر آ کر خاص وعام سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہے اور دادِ تحسین کا یہ سلسلہ ابھی بہت دیر تک چلنے کا امکان ہے۔
میں اُن کی تصنیف پر کچھ تحریر کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ میرے متعلق انھوں نے ایک مضمون لکھ کر مجھے ”جواب آں غزل“ کیلئے مجبور کر دیا۔ اس لیے کتاب پر تبصرہ میں ڈاکٹر صغیر خان، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اورپروفیسرایاز کیانی جیسے اہل علم پر چھوڑ کر حسبِ معمول کچھ لا یعنی گفتگو کر لیتا ہوں۔
کہتے ہیں دو بہروپیے کہیں سفر پر جا رہے تھے کہ ایک ویرا ن مقام پر انھیں رات ہو گئی۔اُن کے لیے سفر جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔کچھ مسافت پر چراغوں کی مدہم ”لو“ نے انسانی آبادی کی نشاندہی کی۔ وہ ہمت کر کے اس بستی میں پہنچے تاکہ بستی والوں کی منت سماجت کر کے شب بسری کی کوئی سبیل نکال سکیں۔دونوں نے کئی گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن دیہاتی ان کی شکل و صورت دیکھ کر ہی جان جاتے کہ ضرور کوئی بہروپیے ہیں اس لیے انہیں اپنے ہاں ٹھہرانے سے انکار کردیتے۔بالآخر ان سے قدرے بڑے بہروپیے کو ایک تجویز سوجھی
اُس نے رازدانہ انداز میں چھوٹے بہروپیے کو کہا ”دیکھو! بستی میں آخری گھررہ گیا ہے۔ یہاں بھی جگہ نہ ملی تو بہت بُرا ہوگا۔ان گھر والوں کو مرعوب کرنا ضروری ہے۔اگر انھیں شک گزرا ہم بہروپیے ہیں تو رات جنگل میں گزرے گی۔ انھیں مرعوب کرنے کے لیے میں تمہیں ”ملا، ملا“ کہوں گا جو اباًتم مجھے ”حاجی، حاجی“کہنا، انشاء اللہ کام ہو جائے گا۔انھوں نے ایسا ہی کیا۔ نتیجتاً صاحب خانہ نے انھیں ملا اور حاجی جان کر اپنا مہمان بنا لیا اور خوب خاطر مدارت کی۔ہم قلم وقرطاس سے تعلق رکھنے والوں نے معاشرے میں اپنی بے اعتنائی دیکھ کر خود ہی ایک دوسرے کو ”ملا“ اور ”حاجی“ کہنا شروع کر دیا ہے۔ اسی رسم کو نبھانے کے لیے برادر عبدا لصبورشیدائی نے مجھے ”حاجی“ بولا ہے تو جواباً مجھے انھیں ”ملا“کہنا ہی چاہیے اور ایسا کرکے میں ان پر کوئی احسان نہیں کر رہاکیوں کہ وہ سچ مُچ کے ”ملا“ ہیں بھی۔
دوستو!یہ صاحب جنہیں ہم پروفیسر عبدا لصبورشیدائی کے نام سے جانتے ہیں اور بعض اوقات اپنی سہولت کے لیے محض صبور بھی کہہ دیتے ہیں کو میں کالج کے زمانے سے جانتا ہوں۔کیپٹن حسین خان شہید ڈگری کالج راولاکوٹ میں ہم کلاس میٹ تو نہیں تھے اس کے باوجود میں انہیں بخوبی جانتا تھاکیوں کہ وہ کالج کے ہر دل عزیز اور مشہور طالب علم تھے۔ہر کالج کی طرح راولاکوٹ کالج میں بھی پڑھاکو اور دنگا فساد کرنے والے طلبہ کے الگ الگ گروپ تھے۔ عبد ا لصبور کا ان دونوں گروپوں گہرے مراسم تھے۔ اگر چہ وہ خود پڑھاکو تھے لیکن ہڑتالیوں کے ساتھ مل کر جلسہ، جلوسوں میں شریک ہونا اور پتھر ”گیٹا“ کرنا بھی اُن کا محبوب مشغلہ تھااور یہ کام کرنے کے بعد وہ انتہائی خاموشی اور راز داری سے اگلی کلاس میں شامل ہو جاتے تھے۔ اساتذہ کرام کو بھی اُن کے اِس طرزِ عمل سے آگاہی نہ تھی اور وہ انھیں محض پڑھاکو اور لکھاری جان کر خوب عزت کرتے تھے۔
عبد ا لصبور کی یہ پسندیدگی صرف کالج تک محدود نہ تھی بل کہ وہ اپنے گھر اور ننھیال کے بھی لاڈلے پیارے تھے۔ اسمعیل جالب مرحوم (خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) عبد ا لصبور کے سگے خالہ زاد یعنی ماسیر تھے، جالب مرحوم بتایا کرتے تھے کہ وہ اورعبد ا لصبور لڑکپن کے زمانے میں اگٹھے ننھیال جایا کرتے تھے۔ننھیال والے جالب کو اُس کی سیاہ رنگت اور عامیانہ شکل و صورت کے باعث خاطر میں نہ لاتے تھے جب کہ عبد ا لصبور کو ان کے ”چکنے چکنے پات“کے باعث بہت پیار کرتے تھے۔کبھی کبھار تو جالب مرحوم کو سودا سلف لانے گاؤں کی دکان یا جندر پر بھیج کر عبد ا لصبور کو مانی چوری بھی کھلالیتے تھے۔ (عبد ا لصبور کے ننھیال والے اس بات کا بُرا نہ مانیں، مذاق کرنا ہمارے جگر، جالب مرحوم کی عادت تھی) راولاکوٹ کالج میں عبدا لصبور چار سال تک ”مانی، چوری“ کے مزے لوٹنے کے بعد گریجویشن کے لیے جامعہ کراچی سدھار گئے۔
حسنِ نے اتفاق سے میں بھی ماسٹر کے لیے جامعہ کراچی چلا گیا۔ جب میں ایم اے عربی کی اپنی پہلی کلاس لینے کلاس میں داخل ہوا تو 20، 25 ناتواں اور لاغر طلبہ وطالبات میں دو ہی گورے چٹے اور دل کش چہرے دیکھنے کو ملے۔ ان دو چہروں میں سے ایک عبد ا لصبور شیدائی تھے جب کہ دوسرے کا ذکر نہ صرف غیر ضروری ہے بل کہ فتنہ انگیز بھی ہے۔ مجھے عبد ا لصبور کو اپنا کلاس فیلو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔اس کلاس میں ہمارے ایک دوسرے دوست اور عبدا لصبور کے یار غار، رحمت شاہین بھی زمانہ جہالت کی”ہوش ربا“ شاعری سے اپنے ایمان کو تقویب د ے رہے تھے جس میں ”دارجل جل“ کا باب بھی شامل تھا۔
یہیں یہ واقعہ بھی پیش آیا جس نے مجھے عربی سے دل برداشتہ کر دیا اورمیں اپنا شعبہ اور یونیورسٹی بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ واقعہ یہ تھا کہ عبدا لصبورکو ایک کشمیری طالب علم نے طعنہ دیا کہ ”تم عربی پڑھنے ہزاروں میل دور کراچی کس لیے آئے ہو بہتر تھا کہ کھائی گلہ میں مولانا خوشی محمد صاحب کے مدرسے میں داخل ہو جاتے وہاں تین وقت کی روٹی بھی مفت ملتی اور عربی بھی پڑھ لیتے“۔عبدا لصبور نے تو یہ بات مذاق میں اڑا لی لیکن مجھے یہ بات ہضم نہ ہوئی۔میں نے ایم اے عربی اور جامعہ کراچی کو خیرآباد کہ دیا۔یوں میں اس گراں قدر رفاقت سے محروم ہو گیا۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے محکمہ تعلیم آزاد کشمیر جوائن کر لیا۔ایک سال گورنمنٹ انٹر کالج لیپہ میں تدریسی فرائض سر انجام دینے کے بعد میری ٹرانسفر، ڈگری کالج ہجیرہ میں ہوئی تو ایک بار پھر عبد ا لصبور شیدائی کی صحبت میسر آگئی۔ شیدائی کی ظریفانہ طبیعت اور معصومانہ شرارتوں سے ہماری بے رنگ پھیکی پھیکی اور پروفیسر انہ مجلسوں کو ایک زندگی سے مل گئی، ان کے گفتنی اور زیادہ تر ”ناگفتنی“کلام نے ہجیرہ میں ہمارے قیام کو یادگار بنا دیا۔ چوہدری بشیر اور سردار حنیف خان کی بزم آرائیاں بھی لاجواب ہوتی تھی مجموعی طور پر بھی ہجیرہ کے لوگ بھی انسان دوست ہیں۔ یہاں کے طالب علم مودب اور یاد رکھنے والے ہیں۔ان ساری خوبیوں کے باعث ہجیرہ میں میرے قیام کے عرصے کو میری زندگی کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔
ہجیرہ کالج میں 6، 7 سال قیام کے بعد میرا تبادلہ پوسٹ گریجویٹ کالج راولاکوٹ میں ہو گیا۔عبد ا لصبورکی رفاقت سے ایک بار پھر محروم ہونا پڑا، لیکن انٹر کالج تراڑکھل میں ہم ایک بار پھر اکٹھے ہو گئے۔یہاں ہمیں پانچ،چھ سال ایک ساتھ گزارنے کا موقع میسر آیا۔اس قیام کے دوران میں ”عبد ا لصبور کی مہمان نوازی کے سوا“ہر طرح کاتعاون میسر رہا۔
عبد ا لصبور شیدائی عمر عزیز کی پونے چھ دہائیاں گزارنے کے باجود بلند حوصلہ،زندہ دل، ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے، شرارت کرتے، ہر جگہ حاضر وناصر ہوتے ہیں۔ عارضہ قلب اور کمردرد کے باوجود مستقل سفر میں رہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کسی علمی،ادبی محفل میں انھیں کہیں بلایا جائے اور وہ سب دوستوں سے پہلے وہاں موجود نہ ہوں۔ صرف علمی، ادبی محفلوں میں ہی شرکت نہیں کرتے،مذہبی جلسوں میں بھی ذو ق و شوق سے شرکت کرتے ہیں اور اس میں وہابی، بریلوی کی تخصیص کے بھی قائل نہیں۔
ایسا بہت کم ہوا ہو گاکہ میں کبھی تراڑکھل گیا ہوں اور چار چنار کے آلے دوالے عبد ا لصبور شیدائی کا ہنستا، مسکراتا چہرہ نظر نہ آیا ہو۔ ہجیرہ گیا ہوں تو کالج کے قرب وجوار میں شیدائی موجود نہ ہوئے ہوں۔ آپ کسی مسجد چلے جائیں تو آستین چڑھائے وضو کے لیے بھاگتا، دوڑتاآدمی عبد ا لصبور شیدائی ہوتا ہے۔ آپ جنڈالی کسی جنازے یا شادی میں چلے جائیں تو مان لیں مسکراتے چہرے اور کھلی باہوں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے پہلا آدمی عبدا لصبور شیدائی ہوگا۔اسی لیے میں اس آدمی کو حاضر و ناظر آدمی کہتا ہوں۔ مجھے تو یہ گمان ہے کہ اگر پروردگار عالم کی کریمی نے جنت کی گُلگشت کا موقع دیا تو اس حاضر وناضر انسان سے ضرور وہاں ملاقات ہو گی جہاں وہ صاف ستھرے شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس داڑھی کو تازہ تازہ ڈائی کروائے، ایک ہاتھ میں موٹے منکوں والی چھوٹی سی تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں شراب طہور کا جام تھامے 100 سے اوپر موٹی موٹی آنکھوں والی حوروں کے ساتھ وسیع مرغزاروں میں اٹکھیلاں کرتے،قہقے لگاتے پائے جائیں گے۔ آپ پوچھیں گے کہ مومن سے تو فقط 73حوروں کا وعدہ ہے، ان کے حصے میں زیادہ کیوں؟تو گمان غالب ہے کہ باقی ماندہ اُن کے دوست، رحمت شاہین سے بور اور بیزار ہو کر کچھ دیر دل بہلانے ادھر کو آنکلی ہوں گی۔ اللہ عبد ا لصبور شیدائی کی عمر،صحت اور زور قلم میں خوب اضافہ کرے تاکہ اُن کی تازہ تصنیف ”سوچ کی لہریں“ اور مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ پوری ہو جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں