آزاد کشمیر میں مہاجر نمائندگی پر نئی سوچ، تجزیہ۔۔۔جاوید حیات

0

یہ مضمون آزاد جموں و کشمیر (آزادکشمیر) قانون ساز اسمبلی میں موجود 12 مہاجر نشستوں کی موجودگی اور ان کی قانونی، سیاسی اور اخلاقی ناگزیری سے متعلق دعوؤں کا جائزہ لیتا ہے۔ ان دعوؤں کی بنیاد اکثر جذباتی بیانیے پر ہوتی ہے، نہ کہ قانونی منطق یا جمہوری اصولوں پر۔
ضروری ہے کہ ہم قانونی حیثیت، سیاسی ضرورت اور اخلاقی ذمہ داری کے درمیان واضح فرق کریں۔ ان کے درمیان فرق کو مٹانا تجزیاتی وضاحت کو دھندلا دیتا ہے اور ادارہ جاتی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مہاجر نشستوں کی موجودگی کو جمہوری اصولوں، نمائندہ مساوات اور آزادکشمیر کے آئینی و انتظامی ڈھانچے کی روشنی میں جانچنا چاہیے۔
مصنف کا مؤقف ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پاکستان کی ذمہ داریاں انتظامی شفافیت، اچھی حکمرانی اور ممکنہ رائے شماری کے لیے سازگار ماحول کی تیاری تک محدود ہیں۔ ان قراردادوں میں مہاجر نمائندگی کو برقرار رکھنے کا کوئی صریح ذکر نہیں۔ آزادکشمیر کی محدود آئینی حیثیت اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی شناخت نہ ہونے کے باعث، ان نشستوں کا جواز اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اصل میں ریاست جموں و کشمیر کی قانونی شناخت اور تسلسل کا انحصار 1927 کے ریاستی باشندہ قانون اور ریاستی شہریت کے سرٹیفکیٹ پر ہے، نہ کہ کسی کوٹے یا مہاجر نشستوں پر۔
2۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں: مہاجر نشستوں کے لیے غلط قانونی حوالہ
اقوام متحدہ کی قرارداد 47 (1948) اور 91 (1951) کشمیر تنازعے سے متعلق بنیادی دستاویزات ہیں۔ یہ صرف جنگ بندی، غیر عسکری اقدامات اور آزادانہ رائے شماری کی بات کرتی ہیں۔ ان قراردادوں میں آزادکشمیر کے اندرونی سیاسی انتظامات یا مہاجر نشستوں کا کوئی ذکر نہیں۔
لہٰذا ان قراردادوں کو مہاجر نشستوں کے جواز کے طور پر پیش کرنا نہ صرف قانونی طور پر کمزور ہے بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی مؤقف کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان نشستوں کو کشمیر ریاست کے تسلسل سے جوڑنا بھی غلط ہے، کیونکہ اصل قانونی جواز 1927 کے باشندہ قانون میں موجود ہے۔
3۔ جمہوری جواز اور دائرہ اختیار کا تضاد
آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں شامل یہ 12 مہاجر ارکان پاکستان کے مختلف صوبوں سے منتخب ہوتے ہیں، جہاں نہ وہ آزادکشمیر کے قانون کے تابع ہیں، نہ وہ مقامی ٹیکس ادا کرتے ہیں، نہ ہی مقامی حکمرانی میں شریک ہوتے ہیں۔
انہیں جلاوطن شہریوں کے طور پر تسلیم کرنا، جیسا کہ فرانس، پرتگال یا اٹلی جیسے خودمختار ممالک میں ہوتا ہے، ایک غلط موازنہ ہے، کیونکہ آزادکشمیر ایک خودمختار ریاست نہیں بلکہ ایک متنازعہ خطہ ہے جسے پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت عبوری طور پر چلا رہا ہے۔

4۔ 1974 کا عبوری آئین اور ساختی تضاد
آزادکشمیر کا 1974 کا عبوری آئین (دفعہ 22) ان نشستوں کی گنجائش دیتا ہے، مگر 13ویں ترمیم نے ان نشستوں کو کسی جائزے یا انتخابی اصلاح کے بغیر مضبوط کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان نشستوں کا سیاسی استعمال بڑھا ہے، اور ان کے انتخابات میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان داخلی خود ارادیت کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
5۔ بھارت کے ساتھ غلط موازنہ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 24 نشستیں پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے لیے مخصوص تھیں مگر کبھی پر نہیں کی گئیں، نہ ہی ان کا کوئی عملی کردار تھا۔ اس کے برعکس، آزادکشمیر کی 12 مہاجر نشستیں مکمل سیاسی اختیارات رکھتی ہیں اور ان کے ذریعے حکومت سازی میں اثرانداز ہوا جاتا ہے۔
6۔ نمائندگی میں بے قاعدگی اور انتخابی شفافیت
یہ نشستیں پاکستان کے صوبوں میں آزادکشمیر کی عملداری سے باہر منتخب کی جاتی ہیں، جہاں آزادکشمیر کا الیکشن کمیشن کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس سے انتخابی شفافیت متاثر ہوتی ہے اور ووٹ خریدنے یا نمائندہ بننے کے لیے بے ضابطگیاں ممکن ہو جاتی ہیں۔
مہاجرین کی اکثریت پاکستان کی شہریت حاصل کر چکی ہے اور انہیں وفاقی ملازمتوں اور سہولیات تک رسائی حاصل ہے، جب کہ آزادکشمیر کے باشندوں کو ایسی کوئی دوہری مراعات حاصل نہیں۔
7۔ آزادکشمیر کے نوجوانوں کے ساتھ سماجی ناانصافی
آزادکشمیر میں 25 فیصد سرکاری نوکریاں ان لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو آزادکشمیر کے مستقل رہائشی نہیں، جن میں 19 فیصد مہاجرین اور 6 فیصد داخلی طور پر بے گھر افراد (IDPs) شامل ہیں۔ یہ کوٹہ آزادکشمیر کے بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی ہے، جو پہلے ہی محرومی کا شکار ہیں۔
8۔ آئینی تضاد جس کی فوری اصلاح درکار ہے
ابتدائی طور پر ان نشستوں کو انسانی ہمدردی کے تحت وقتی طور پر قائم کیا گیا، مگر اب یہ آزادکشمیر کے آئینی ڈھانچے میں مستقل تضاد اور جمہوری ناہمواری کا باعث بن چکی ہیں۔ نہ تو یہ آزادکشمیر کی حکومت کو ریاست جموں و کشمیر کا نمائندہ تسلیم کرنے کی بنیاد بن سکتی ہیں اور نہ ہی پاکستان نے ایسا کوئی مؤقف اختیار کیا ہے۔
مہاجرین کا تاریخی کردار اپنی جگہ مگر ان کا آزادکشمیر کی داخلی خودمختاری اور وسائل پر دعویٰ جمہوری اصولوں اور مقامی خود ارادیت کے منافی ہے۔
9۔ اصلاح کی ضرورت اور راستے
اس نظام کو ختم کرنا یا بنیادی اصلاح کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ چند ممکنہ تجاویز درج ذیل ہیں:مہاجر نشستوں کو مکمل ختم کر کے صرف آزادکشمیر کے رہائشیوں کو اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ان نشستوں کو محض علامتی بنا دیا جائے اور متعلقہ فنڈز آزادکشمیر میں مقامی طور پر بے گھر افراد پر خرچ کیے جائیں۔نشستوں کی تعداد 70 فیصد کم کر دی جائے تاکہ آبادی کے تناسب سے مطابقت پیدا کی جا سکے۔متناسب نمائندگی (PR) کے اصول پر مبنی نظام اپنایا جائے تاکہ سیاسی جماعتوں کو ان نشستوں پر ووٹ کے تناسب سے نمائندگی ملے۔ملازمت کے کوٹے اور ترقیاتی فنڈز کو آزادکشمیر کے اندرونی بے گھر افراد کے لیے مختص کیا جائے۔مستقبل میں کسی بھی سیاسی حل کے لیے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے اندرونی نظم و نسق میں اصلاح ناگزیر ہو گی۔ آزادکشمیر کو جمہوری اصولوں، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، اور مقامی خود ارادیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے سیاسی اداروں کو از سر نو ترتیب دینا ہوگا۔مصنف کا تعارف: ڈاکٹر جاوید حیات ایک سیاسی تجزیہ کار اور مصنف ہیں جو جموں و کشمیر کے تاریخ، سیاست اور سماج پر تحقیق کرتے ہیں۔ وہ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، پشاور میں پیدا ہوئے، پنجاب میں پرورش پائی اور اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کی نمایاں تصانیف میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں