بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے حصے جسے ہم ”مقبوضہ کشمیر“ کے نام منسوب کرتے ہیں کے کچھ حصوں میں گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس دفعہ بھی”21دسمر کو” پھیرن”کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن یوں تو کئی سالوں سے منایا جاتا ہے لیکن 2022سے اس دن کو زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس ایک وجہ یہ ہے کہ 2018-19کے بعد بعض انتہا پسند ہندو تنظیمیں جنہیں مودی حکومت کی حمایت حاصل ہے اس لباس کی مخالفت کرتی ہیں۔
”پھیرن” اور پُوٹس کشمیری مرد و خواتین کے مخصوص روایتی لباس کا نام ہے۔پھِیرن یا پُوٹس اوپر نیچے پہنے جانے والے دو جُبّوں (گاؤن) پر مشتمل ہوتا ہے جو دنوں ایک ساتھ پہنے جاتے ہیں۔ روایتی کشمیری پھِیرن اور پُوٹس کی لمبائی پاؤں تک ہوتی ہے اور یہ انیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک خاصا مقبول رہاہے جو بعد ازاں آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ پِھیرن اپنی جدید شکل میں گھٹنوں سے نیچے تک ہی ہوتا ہے جو سُتھن (شلوار کی ایک ڈھیلی قسم) کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ لمبے پھیرن کے ساتھ سُتھن پہننا لازمی نہیں ہوتا، یہ پہننے والے کی مرضی پر منصر ہے کہ وہ طویل پھیرن کے ساتھ روایتی زیر جامہ پہنے کیونکہ روایتی پھیرن کے چاک نہیں ہوتے۔
2018 میں پہلی بارایک ہندو انتہا پسند جماعت بجرنگ دل نے کشمیر کے مخصوص روایتی لباس ’پھیرن‘ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد دیگر تنظیموں کی جانب سے بھی اسی طرح کے مطالبے سامنے آئے۔ 2021 میں دیگر انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے اس مطالبے میں شدت پیدا ہوئی۔ ان تنظیموں کا دعویٰ تھاکہ پھیرن ایک بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے جس میں مبینہ عسکریت پسند ایک جگہ سے دوسری جگہ دھماکہ خیز مواد چھپا کر لے جاتے ہیں۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پھلائی جانے والی افواہ تھی اور اس مطالبے نے خطے میں ایک نئی بحث چھیڑی۔ 2022 میں سرینگر کے لال چوک سینکڑوں مرد و خواتین نے بچوں سمیت اس دن کو منفرد انداز میں منایا۔
ان دنوں مقبوضہ کشمیر کے مقامی میڈیا میں اور پھر سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی اس وقت وائرل ہوئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی اہلکار ان افراد کی زیادہ ”گہرائی“سے تلاشی لے رہے ہیں جو پھیرن پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ان تصاویر کے جائزے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان انتہا پسند تنظیموں کے مطالبے کو حکومتی حمایت حاصل رہی ہے اور اس میں شک نہیں کہ ایسا مطالبہ انتہا پسند تنظیمیں اپنی مرضی سے نہیں کرتیں بلکہ انہیں ”انتہا پسند“ بھارتی حکومت کی مکمل حمایت دستیاب ہوتی ہے۔خود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی 2019 میں عین اس وقت جب شہری ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہو رہے تھے تو ایک پبلک جلسے میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ” احتجاج کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچانا جا سکتا ہے”یہ صاف اشارہ ان کشمیریوں کی جانب تھا جو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے روایتی لباس ”پھیرن“ پہنتے ہیں۔ حالانکہ ان قوانین کے خلاف اکیلے صرف مسلمان سراپا احتجاج نہیں تھے بلکہ ہندو اور دوسرے لوگ بھی اس مزاحمت کا حصہ تھے۔ چونکہ اس کا ہدف بظاہر مسلمان تھے اس لیے مسلمان زیادہ تعداد میں سڑکوں پر تھے۔ وزیر
ِ اعظم کی طرف سے کھلا کھلم ایک اقلیت کے خلاف اکثریت کو اکسانا نہایت ہی حیران کن تھا۔کشمیریوں نے بھارتی وزیر اعظم کی اس تقریر پر بھی اپنا سخت رد وعمل دیا تھا اور یہ احتجاج اب تک کسی نا کسی شکل میں جاری ہے۔
”پھیرن“ جسے کشمیر میں ”فیرن“ بھی کہا جاتا ہے جموں و کشمیر کی ثقافت کا اہم ترین حصہ ہے پہلے یہ شاید ویلی تک محدود تھا لیکن اب یہ جموں میں بھی برابر پسند کیا جاتا ہے۔ چناب اور پیر پنجال کے علاقے میں لوگ بلا مذہب اور رنگ و نسل کے تعصب سے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ بوڑھے، بچے، نوجوان و عورتیں خوشی سے اسے زیب تن کرتے ہیں۔گرمیوں میں یہ کاٹن کا تیار کیا جاتاہے جبکہ سردیوں کے لیے اونی کپڑے کا بنایا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے اکثریتی علاقوں میں چونکہ سردی زیادہ پڑتی ہے اس لیے سردیوں میں اس کا استعمال زیادہ بڑھ جاتا ہے یہ ایک گرم اور آرام دہ لباس ہے۔ برف باری اور شدیدسردیوں میں پھیرن کے نیچے کانگڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جواپنی مخصوص حرارت کے باعث شدید سردی میں انسانی جسم کو گرم رکھتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے بہت سارے حصے میں سرکاری دفتروں میں بھی پھیرن پہنا جاتا ہے۔ 2018 میں ویلی کے محکمہ تعلیم کے احکام کی جانب سے سرکاری تعلیمی دفتروں میں ”پھیرن“ کے استعمال پر پابندی کا ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد عوامی مزاحمت کے پیش نظر حکومت کو یہ نوٹیفکیشن واپس کرنا پڑا۔
سرینگر میں ہر سال ”انٹرنیشنل پھیرن ڈے“ منایا جاتا ہے۔ یہ دن گذشتہ کئی سالوں سے منا یا جاتا ہے۔اس تقریب میں کئی لوگوں جن میں سماجی کارکن، خواتین،سیاسی جماعتوں کے کارکن شامل ہیں، روایتی پھیرن پہن کر جمع ہوتے ہیں اور پھیرن کو عالمی سطح پر متعارف کرواتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افراد میں صرف کشمیری نہیں بلکہ بیرون وادی کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ”پھیرن“ پورے کشمیر میں یکساں مقبول ہے۔اکثر یہ لوگ اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھاتے ہیں جن پر اپنے کلچر کی حمایت اور بھارتی انتہا پسند تنظیموں کے پروپگینڈا کے خلاف نعرے درج ہوتے ہیں۔ یہ”پھیرن“ کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مختلف حصوں میں بسنے والوں کی یکجہتی کا بھی مظہر اور یکجہتی کی ایک بہترین مثال بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اپنی”پھیرن“ پہنے تصاویر شئیر کر کے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ اور اپنی ثقافت کے ساتھ جڑے رہنے کا پیغام دیتے ہیں جو یقیناً قابل تحسین اقدام ہے۔ہمیں اپنی شناخت کو قائم رکھنے کے لیے اس طرح کے تہواروں میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنا چائیے۔”پھیرن“ واقعی کشمیری شناخت بن چکی ہے اور دنیا بھر میں اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں آزاد کشمیر میں بھی مرد و خواتین اسے شوق سے پہنتے ہیں خاص کر مظفرآباد ڈویژن میں اس کی مانگ زیادہ ہے۔ آر پار تجارتی راستے بند ہونے کی وجہ سے اب یہ دبئی کے راستے پاکستان لائی جاتی اور پھر آزاد کشمیر میں بھی فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت ہر سال بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میں مقامی سطح پر بھی اسے تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کی کوالٹی شاید اس طرح کی نہیں ہوتی۔ اگر اس صنعت پر توجہ دی جائے تو یہ نہ صرف ایک منافع بخش کام ہے بلکہ اپنی ثقافت کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
21دسمبر،پھیرن کا عالمی دن۔۔۔۔ عابد صدیق
0